لاہور (جیوڈیسک) پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کے علاقے بیدیاں روڈ پر بدھ کی صبح ایک خودکش دھماکے میں، جس کا ہدف مردم شماری کرنے والی ایک ٹیم تھی، پنجاب حکومت کی جانب سے اب تک 6 ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
ایک پرائیویٹ وین میں سوار ہو کر مردم شماری کے لیے جانے والے سرکاری اہلکاروں کے اس قافلے پر ایک خود کش بمبار نے حملہ کر کے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ اس سانحے میں ہلاک ہونے والوں میں مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کے 5 جوان بھی شامل تھے۔ اس وقت لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں موجود سانحہٴ بیدیاں روڈ کے 14 زخمیوں میں سے دو کی حالت نازک بیان کی جا رہی ہے۔
پاکستانی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مردم شماری کرنے والی ٹیموں پر حالیہ حملوں کے باوجود مردم شماری کا عمل جاری رکھا جائے گا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کہا ہے کہ مردم شماری ایک قومی فریضہ ہے جسے ہر صورت مکمل کیا جائے گا۔
سانحہٴ بیدیاں روڈ کو وقوع پذیر ہوئے 12 گھنٹوں سے زائد وقت ہو چکا ہے لیکن ابھی بھی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سانحے کے ذمہ داروں تک پہنچنے کے حوالے سے کوئی ٹھوس کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ البتہ اس واقعے کے فوراً بعد پاکستان کی سویلین حکومت کے وزیر داخلہ اور پاک فوج کے اعلیٰ حکام میں ہنگامی طور پر رابطہ ہوا ہے، جس میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے سول ملٹری تعاون بڑھانے کے طریقوں پر بات چیت کی گئی ہے۔
بیدیاں روڈ کے علاقے میں ابھی تک دکھ، خوف اور سوگ کی فضا طاری ہے۔ اگرچہ بیدیاں روڈ کو عام ٹریفک کے لیے اب کھول دیا گیا ہے، تاہم جائے حادثہ کو کارڈن آف کر کے شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق جائے حادثہ سے خودکش بمبار کے جسمانی اعضاء ملے ہیں، جس سے اُس کی شناخت میں مدد مل سکتی ہے۔ پولیس اہلکار بیدیاں روڈ پر جائے حادثہ سے ملحقہ گلیوں اور بازاروں میں بھی سرچ کر رہے ہیں۔ تفتیشی اداروں نے کئی نجی مقامی اداروں سے مختلف راستوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کر لی ہے۔اس سانحے کی تفتیش کرنے والے حکام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ خود کش بمبار ایک سہولت کار کے ساتھ موٹر سائیکل پر مردم شماری وین کا تعاقب کرتے ہوئے یہاں آیا تھا۔ ملزمان نے اس واقعے سے پہلے اس علاقے کی ریکی کی تھی۔
ادھر پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں سانحہٴ بیدیاں روڈ کے بعد کی صورتحال پر غور کیا گیا۔ اس موقعے پر مردم شماری کی ٹیموں کی سکیورٹی بڑھانے اور اس سانحے کے مجرموں تک پہنچنے کے لیے مختلف اداروں میں باہمی تعاون کو بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس حملے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا، جس میں پولیس، انسداد دہشت گردی فورس کے علاوہ حساس اداروں کے اہلکار بھی شامل ہوں گے۔
اس سانحے میں جاں بحق ہونے والے فوجی اہلکاروں کی نماز جنازہ لاہور کے ایوب سٹیڈیم میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ادا کی گئی۔ اس موقعے پر سانحہٴ بیدیاں روڈ کے دوران جان نثار کرنے والوں کی میتوں کو گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، لارڈ میئر مبشر جاوید اور کورکمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل صادق علی نے بھی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ اس موقعے پر کئی صوبائی وزراء اور سول اور عسکری حکام بھی موجود تھے۔
سانحہٴ بیدیاں روڈ کا مقدمہ بدھ کی شام انسداد دہشت گردی کے مقامی تھانے میں درج کر لیا گیا۔ اس مقدمے میں دھماکہ خیز مواد رکھنے اور دہشت گردی کی واردات کا ارتکاب کرنے کے حوالے سے دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ ادھر وین کے ڈرائیورکو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے اور اس کے موبائل ڈیٹا کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔