حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور ثواب پانے کے ارادے سے شب قدر میں قیام کیا، یعنی اسے ادائے فریضہ کے بعد نفل نمازوں اور ذکر ودعا میں گزارا تو اس کے تمام پچھلے (صغیرہ) گناہ بخش دیے جائں گے۔جس رات کی اتنی خوبیاں ہیں اسے پانے کے لیے ہمیں کچھ خاص کوشش اور جد وجہد بھی کرنی ہوگی، تبھی آپ اس سے فائدہ حاصل کرسکیں گے۔
اس رات کی کچھ علامتیں بھی بیان کی گئی ہیں، جنہیں دیکھ کر آپ کو اطمینان ہوسکتا ہے کہ آپ نے شب قدر پالی ہے۔ شبِ قدر کے گزرنے کے بعد والی صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے، تو قدرے سفید سا طلوع ہوتاہے، جس کی روشنی میں تیز شعاعیں نہیں ہوتیں۔ یہ آخری دس دنوں کی کسی طاق رات میں واقع ہوتی ہے۔ اس کے لیے کسی خاص رات کی تحدید نہیں کی گئی ہے تاکہ آخری عشرہ میں قیا م اللیل کرنے والا ہر شخص ان راتوں کو قیام اورذکر و دعا کرتے ہوئے گزارے۔اور رمضان کے نیک اعمال کے اجر وثواب کے ساتھ شب قدر کیاس مخصوص ثواب کا بھی وہ مستحق ہوجائے۔ یہ اللہ کی اپنے بندوں پر خصوصی مہربانی ہے۔
یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے اس مبارک مہینہ میں اپنے فریضے کی ادائیگی کی توفیق دی اور اس آخری عشرہ کے خیر وبرکت سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔ اس مبارک مہینے کے ایام کم ہوتے جارہے ہیں۔ اسکی مبارک راتیں بھی ختم ہوتی جارہی ہیں۔ یہ دن اور یہ راتیں گویااعمال کے لیے محفوظ تجوریاں اورمحفوظ گودام گھر ہیں۔ یہ مبارک مہینہ، ربانی خزانہ لوٹنے کا موسم ہے، اس مہینے کے استقبال کرنیوالے نہ جانے وہ کتنے لوگ ہوں گے جو اسے پورا کرنے سے پہلے ہی گزر گئے اور اسے دوبارہ پانے کی امید کرنے والے نہ جانے کتنے لوگ تھے، جن کی یہ امید پوری نہ ہوسکی۔ انہوں نے اپنی موت اور اس کے انجام کے بارے میں کیوں نہیں غور کیا ؟ اور اپنی امید کی فریب کا ریوں اور اپنے نفس کے غرور کو کیوں نہیں پہچان سکے؟رمضان المبارک کے آخری دس دن ایسے ایام ہیں جن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے۔ اس سے قبل کے بیس دن کے اوقات ، نماز اور نیند میں ملے جلے گزار تے تھے لیکن جب یہ آخری دس دن آجاتے تھے، تو کمر کس لیتے تھے، عبادت میں زیادہ محنت کرتے تھے اور تہبند کا گرہ سخت کرلیتے تھے، اپنے بستر چھوڑدیتے تھے، اپنے بال بچوں کو عبادت کے لیے جگاتے تھے، اپنی لخت جگر بیٹی فاطمہ اور اپنے پیارے داماد علی رضی اللہ عنہما کا دروازہ یہ کہہ کر کھٹکھٹاتے تھے کہ (کیاتم لوگ اٹھکر نماز نہیں پڑھوگے) کیاایسا نہیں ہوا کہ جب رمضان المبارک کے دس دن باقی رہ جاتے تھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال میں سے جو لوگ بھی قیام اللیل کی صلاحیت رکھنے والے تھے، کسی کو بھی قیام اللیل کی نماز کے لیے جگانے سے نہیں چھوڑتے تھے؟ جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال کو ماہ رمضان کے آخری دس دن کے ان خصوصی فضائل وخیرات میں حصہ لینے کے لیے گھر گھر جاکر جگاتے اورتنبیہ فرماتے تھے، تو ہمیں سوچنا اورعزم کرنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اْسوہ ونمونہ پر عمل کرنے کے لیے خود اپنے اور اپنے اہل وعیال کے سلسلے میں کیا طریقہ اپنایا جائے۔
Ramadan
اس وقت ماہ رمضان کے ان دس ایام سے گزر رہے ہیں،جن میں ہزارراتوں سے بہتر رات”شب قدر” گزرنے کے ساتھ اس میں ایک ایسی محبوب سنت بنام “اعتکاف” مشروع کی گئی ہے جو مسجد جیسی مبارک جگہ کے علاوہ اور کہیں انجام نہیں دی جاسکتی، جب کوئی شخص اعتکاف کرتا ہے، تو وہ اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت اور اس کی یاد میں مصروف رکھتا ہے، اور اسے دیگر ہر قسم کی مشغولیت سے منقطع کرلیتا ہے، اور دل وجان سے اپنے رب کی اطاعت پر اور ربسے قریب کرنے والی چیز پرجم جاتا ہے۔اعتکاف کے معنی اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ خالق سے تعلق جوڑنے کے لیے مخلوقات سے تعلقات منقطع کر لیے جائیں۔ایک معتکف کے لیے اللہ کی معرفت اور اس کی محبت قوی ہوجاتی ہے، جو اس کے اندر اللہ کی اطاعت اوراللہ پر توکل کا جذبہ پیدا کر دیتی ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلمان اعتکاف بیٹھتے ہیں،جماعةالدعوة کے زیر اہتمام جامع مسجد القادسیہ چوبرجی میں گزشتہ برسوں کی طرح امسال بھی 3ہزار سے زائد مردوخواتین نے اعتکاف بیٹھنے کی سعادت حاصل کی ہے۔اس سلسلہ میں وسیع پیمانے پر تیاریاں و انتظامات کئے گئے ہیں۔جماعةالدعوة کی طرف سے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔ تمام افراد کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد انہیں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت دی گئی۔مرکز کے سکیورٹی انتظامات کیلئے خفیہ کیمرے بھی نصب کئے گئے ہیں۔معتکفین کیلئے حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمرفاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضیٰ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے ناموں پر بستیاں بنائی گئی ہیں۔
جامع مسجد القادسیہ میں نماز تراویح قاری عبدالودود عاصم پڑھارہے ہیں۔امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں جامع مسجد القادسیہ چوبرجی میں تفسیر قرآن بیان کرتے ہیں۔ یکم سے 20رمضان المبارک تک جماعةالدعوة کے مرکزی رہنما حافظ عبدالغفار المدنی نے نماز تراویح میں پڑھے گئے قرآن پاک کی تفسیربیان کی۔رمضان ا لمبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتے ہی جامع مسجد القادسیہ کی رونقیں دوبالا ہو جاتی ہیں۔ طاق راتوں میں خاص طور پریہاںتل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ شہر بھر سے ہزاروں افراد پاکستان کے نامور قاری عبدالودود عاصم کی امامت میں نماز تراویح اداکرنے اور امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید کی جانب سے تراویح میں پڑھے گئے قرآن پاک کی تفسیر سننے کیلئے آتے ہیں۔مرکز القادسیہ میں اعتکاف بیٹھنے والوں کے لئے کھانے پینے کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت پسند تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا معاملہ رمضان کے مہینے میں اور بھی زیادہ بڑھ جاتا تھا، جب جبریل علیہ السلام ہر رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرکے قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے۔
جبریل علیہ السلام کی ملاقات کی مناسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیرات کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی معلوم ہوتے تھے۔ اگر لوگوں کو رمضان مبارک میں نیکیاں انجام دینے کے اجر عظیم اور اس کے ثواب کثیر پر یقین ہوجائے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بیا ن ہواہے، تووہ لوگ فقراء و محتاجین کو صدقات و زکاة الفطر ادا کرنے کی دل کھول کر کوشش کریں گے۔ اپنے نفس کے لیے بھلائی کے کا م انجام دیتے رہیں گے، اور اپنے نبی کی تعلیمات کو ایک ایسی زندہ امت کی طرح اہمیت دیںگے جوعلم حاصل کرکے اس پر عمل کرتی ہے اور نیکی، سلامتی وپاکیزگی کے اعتبار سے، اعمال کے ثمرات کی مستحق ہوتی ہے۔