تحریر: احمد نثار ایک ہمہ مقصدی پراجکٹ تھا۔ جس سے کئی فائدے تھے۔ اس کے پانی کا ذخیرہ ایک بڑا جھیل نما تھا۔ اس میں حمل و نقل بھی ہوا کرتے تھے، ساتھ ساتھ مچھلی بانی بھی۔ وہ پانی کا ذخیرہ اتنا تھا کہ اس میں کئی قسم کے آبی جانور نمو پاتے تھے۔ اسی پانی کے ذخائر سے آب پاشی، پانی کی نکاسی، کاشت کاری، زراعت سازی بھی ہوا کرتی تھی۔ اس کے پانی سے قرب جوار کی عوام سیراب ہوتی تھی۔ اپنی ضروریات پورا کرتی تھی۔ خواہ وہ پینے اور دیگر استعمال کے لیے ہو کہ کاشت و صنعت کیلئے۔ اس ڈیم کے دروازوں سے گرتے پانی سے بجلی بنا لیتے تھے اور گاؤں گھروں کو روشن کر لیا کرتے تھے اور صنعت کاری کے پہئے کو بھی چلا لیا کرتے تھے۔ اس پراجیکٹ تلے جتنے بھی گائوں شہر تھے خوشحال تھے۔
لیکن ایک رات اچانک یوں ہوا کہ پراجیکٹ کے سارے گیٹ (دروازے) کھول دئے گئے۔ پراجیکٹ کا سارا پانی دروازوں سے بے ساختہ اْمڑ پڑا، جس کی نہ کوئی ترتیب تھی اور نہ ہی کوئی درست راستہ۔ ذخیرے میں موجود پانی، حمل و نقل کی کشتیاں غوطہ کھانے لگیں، کئی غرقاب ہوئیں تو کئی ٹوٹ گئیں۔ جھیل کے جانور اس ناگہاں اْتھل پْتھل سے ستیاناش ہوگئے۔نہ خود زندہ رہ سکے نہ ہی انسانوں کی غذا میں کام آسکے۔ انسانوں کا یہ حال تھا کہ پانی کو بھی ترس رہے تھے اور کھانے کو بھی۔
Water
پراجیکٹ سے نکلا ہوا پانی اپنی بے لگام بہائو سے، پراجیکٹ پر انحصار رکھنے والے گاؤں شہر صنعت و کاشت کو تحس نحس و برباد کرتا ہوا جارہا تھا۔ لوگ، بوڑھے جوان عورتیں، کسان، نوکر چاکر، خدمت گذار، مزدور و محنت کش اور دیگر تمام اس انجانے طوفان نما بحران کی لپیٹ میں آگئے اور ڈوب کر مرنے لگے۔
گیٹ بان اور گیٹ کھولنے والا ملازم ایسے بد بخت تھے، نہ اُنہیں ڈیم کے دروازوں کا اندازہ تھا نہ دروازے کھولنے اور بند کرنے کا طریقہ معلوم تھا۔ نہ اس کو جھیل کے پانی کے ذخیرے کا علم تھا نہ اس کے بہاؤ کا، نہ دروازوں سے نکلتے ہوئے پانی کی مقدار کا۔ ڈیم کے دروازے کھولنے کا حکم صادر کرنے والے حکمران کا یہ عالم تھا کہ وہ، عوام کی ضروریات سے ناواقف تھا۔ عوام کی فلاح و بہبود کا نہ کوئی پاس تھا نہ ہی کوئی منصوبہ۔ بس اس کی بحث کا ایک ہی آلاپ تھا کہ اس ڈیم کی جھیل میں چند گندی مچھلیاں ہیں جنہیں وہ اس جھیل سے نکالنا چاہتا ہے۔ عوام کو اس حکمران پر بے حد غم و غصہ تھا،اس کی تربیت گاہ کو کوس رہے تھے۔ چونکہ اس جھیل کا نظام جمہوری تھا، اور اس بے حس حکمران کا انتخاب انہی کی ناقص العقل کے رجحان کا نتیجہ تھا۔
Engulfed in the Water
پروجیکٹ تلے بسے گاؤں شہروں کا یہ عالم تھا کہ، پانی کے لپیٹ میں آئے گائوں شہر، گلی کوچے، گھر بار، سیدھی سادھی معصوم عوام شدید حالات کا شکار ہوگئے۔ ہاہاکار مچ گیا۔ کوئی پرسانِ حال نہیں، گویا کہ بے یار و مددگارحالات میں کبھی حکمران اور اس کی سرکار پر غم و غصہ ہورہے تھے اور کبھی خود کو کوس رہے تھے۔
ان حالات میں کچھ کفن چور اپنی تجارتی منڈیاں بھی کھول رکھے تھے۔ اس حکمران کے مداح انسان نما گدھ، یہ چیختے پھر رہتے تھے کہ آئندہ اچھے دن آنے والے ہیں، اس تباہی کو برداشت کرلیں۔ اور مزید کہہ رہے تھے کہ اس تباہی کے خلاف بولنے والے اس جھیل کے غدار ہیں۔ جھیل کے خیرخواہوں کی آہ و بکا نخار خانے میں طوطی کے بول بن کر رہ گئی۔
حکمران جو کہ بے حس و سنگ دل نام سے مشہور تھا ہی، جس کے مداح اسے مرد آہن کا نام دے کر خوش ہورے تھے۔ مگر وہ عوام میں آنے سے گھبرا رہا تھا۔ پتا نہیں وہ نادم تھا کہ نہیں، مگر وہ عوام کی ہائے اور گالیاں سنتا، اگر انسانی دل رکھتا تو ان گالیوں سے ہی مرجاتا۔
اس بحران سے متاثر لوگ اس مرد ناسمجھ کو فرعون شداد، راون، کنس اور ہٹلرجیسوں کا نام دے رہے تھے۔ عالم برزخ میں موجود ان کی روحیں اس عوام سے برہم ہوکر یوں مْنہ بنارکھی تھیں کہ وقت کے حکمران کا توازنہ ہم سے کیوں کیا جارہا ہے؟