تحریر: سید توقیر زیدی پاناما پیپرز کے حوالے سے جس طرح ایک طوفان آیا ہوا ہے اور کچھ صحافی اور دوسرے لوگ اسے کچھ قومی رہنماؤں کے خلاف جس طرح ہتھیار بنا کر ان کی کردار کشی کررہے ہیں، اس پر ایک معروف موقر اور کھوجی صحافی رابرٹ پیری نے ایک طویل تجزیاتی کالم لکھا ہے، جس میں انہوں نے اپنے ممدوح ولاڈی میر پیوٹن صدر روس کے خلاف کرپشن کے پراپیگنڈہ ہتھیار کا پول کھولا ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ اس تجزیئے کو اختصار کے ساتھ اپنے قارئین تک پہنچا سکوں۔ یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ کرپشن کے پراپیگنڈے کے ہتھیار کا واحد شکار پیوٹن نہیں ہے اس کی زد میں کچھ اور لوگ بھی آتے ہیں، جنہیں بدنام کرکے سیاست سے خارج کر دینا کچھ عالمی شاطروں کی شدید خواہش ہو سکتی ہے۔ خود رابرٹ پیری نے اگرچہ یہ تجزیہ ولاڈی میرپیوٹن کے حوالے سے تحریر کیا ہے، لیکن اس کا کہنا ہے کہ کرپشن کے پراپیگنڈے کا یہ ہتھیار ایسے کئی رہنماؤں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے،جنہیں بدنام کرنے کی مہم سے عالمی شاطروں کے مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔
”افسوس کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مالیاتی کرپشن کے خلاف صحافیوں کے مقدس فریضے کو پراپیگنڈے اور حکومتوں کی ضرورت نے ”کرپٹ” کرکے رکھ دیا ہے، یہی نہیں، بلکہ پیشہ ورانہ مسابقت نے بھی متعدد صحافیوں کو اس کرپشن میں ملوث کر دیا ہے اور بہت سے صحافی اس سنسنی خیزی کا حصہ بن جاتے ہیں جب ”مین سٹریم میڈیا” کچھ مخصوص ولنز (Villains) کے خلاف سنسی خیزی پھیلا رہا ہوتا ہے، لیکن اکثر اوقات اس قسم کے صحافی کسی ملک میں حکومت کی تبدیلی (Regime Change) کی سکیم کا ہر اول دستہ ہوتے ہیں”۔ پیری لکھتا ہے کہ یہ صحافتی ٹولہ Color Revolutionکے لئے فضا بنانے کے گندے کھیل میں ملوث ہوتا ہے اور کسی غیر ملکی سربراہ حکومت کو بدنام کرکے نوبت کسی انقلاب تک پہنچانے میں اس ٹولے کا پورا پورا ہاتھ ہوتا ہے”۔ پیری کہتا ہے یہ نام نہاد انقلاب فروغ جمہوریت کی کسی نام نہاد این جی او کے ذریعے برپا کیا جاتا ہے اور اس کے پیچھے امریکی حکومت کی نیشنل انڈوومنٹ فارڈیما کریسی کے فنڈز یا جارج سورو جیسے امیر الامراء کا سرمایہ کام کررہا ہوتا ہے۔
Corruption propaganda weapon
پیری کے خیال میں رڑیم چینج کی مہم کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا ہے اور اس بار ان مذموم مقاصد کے لئے روسی صدر ولاڈی میر پیوٹن سابق برازیلی صدر لاداسلوا اور کچھ دوسرے عالمی رہنماؤں پر کرپشن پراپیگنڈہ ہتھیار سے حملہ کیا جائے گا۔ پیری اس بات پر بھی تعجب کا اظہار کرتا ہے کہ جن الزامات کوبرطانوی اخبار گارجین اور دوسرے اخبارات خوب ہوا دے رہے ہیں اور سنسنی پھیلا رہے ہیں، نام نہاد پاناما پیپرز میں ان الزامات کے سلسلے میں ولاڈی میرپیوٹن (نوازشریف کا بھی) کا نام سرے سے نہیں ہے، لیکن گارجین لکھتا ہے کہ ”اگرچہ صدر پیوٹن کا نام اس میں نہیں ہے، لیکن اعدادوشمار کے مخصوص انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر ولاڈی میرپیوتن کے دوستوں نے کچھ ایسی ڈیلز (Deales) سے ملین کمائے ہیں جو اگر پیوٹن کی سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو کمانا ممکن نہ ہوتے اور دستاویزات اس سمت اشارہ کرتی ہیں کہ پیوٹن کے خاندان نے اس رقم سے فائدہ اٹھایا اور پیوٹن کے دوستوں کی دولت خرچ کرنے کے حوالے سے پیوٹن ہی کی دولت ہے”۔ پیری کا خیال ہے کہ اگر مغرب امریکہ اور مغربی میڈیا میں پہلے سے صدر پیوٹن کو شیطان نہ قرار دے دیا جا چکا ہوتا تو ”انداز” لگتا ہے ”اشارہ ملتا ہے”، ”ظاہر ہوتا ہے”، ”فی الحقیقت” جیسے غیر متعین الفاظ ایڈیٹر کی چھلنی سے گزر نہیں سکتے تھے۔
درحقیقت گارجین کی اس عبارت میں اگر کوئی حقیقت بیان ہوئی ہے تو وہ صرف اتنی ہے کہ صدر پیوٹن کا نام اس نام نہاد فہرست میں شامل نہیں ہے۔ خود برطانوی ادارہ میڈیا واچ نے گارجین کی اس تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گارجین نے خود اپنی پیروڈی کر دی ہے۔ اس لئے پیری یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے، ان الزامات کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو، صحافتی نقطہ ء نظر سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ مغرب کے مخصوص مفادات اور پراپیگنڈے کی اس افادیت کے پیش نظر ایک طویل مدت سے حقائق اور معروضیت کو قربان کر دیا گیا ہے۔ کچھ مغربی حلقوں کو آئی ایم ایف اور جی سیون (G7) کے مقابل Bric (برازیل، روس، انڈیا، چین اور ساؤتھ افریقہ) کا معاشی اتحاد اور اسی قسم کے دوسرے اقدامات جگر کے کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔(پاک چین اقتصادی راہداری بھی اس میں شامل ہو سکتی ہے)، کیونکہ جنگ عظیم دوم کے بعد کے زمانہ میں ایک عالمی مالیاتی نظام (Global Financial System) امریکہ کی طاقت کو مسلط کرنے کا ذریعہ مانا جا رہا ہے اور اس اجارہ داری کو نقصان پہنچانے والے ممالک ناپسندیدہ قرار پاتے ہیں۔
پیری کا کہنا ہے کہ اس سے بھی بڑی بے انصافی یہ ہے کہ جس کرپشن کو ان ”غیر دوست” ممالک میں پراپیگنڈے کے ذریعے ناقابل برداشت سمجھا جاتا ہے۔ عین اسی طرح کی کرپشن امریکہ اور یورپ کے اپنے اندر بہت معمولی اور ناقابل توجہ سمجھی جاتی ہے۔مثلاً ہیلری کلنٹن کی صدارت کے امکانات روشن ہونے پر وال سٹریٹ کے مخصوص مفادات کے طالب سرمایہ داروں کی طرف سے ہیلری کو تقاریر کی دعوت اور کئی ملین ڈالرز کے عطیات دینا۔ ری پبلیکن امیدوار ٹیڈکروز اور دوسرے کئی صدارتی امیدواروں کے لئے سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری جس سے امیدوار کی کامیابی کی صورت میں مفادات حاصل کئے جاتے ہیں، ہر چند کہ یہ ایک صریح کرپشن ہے، لیکن امریکی اسے محض ناپسندیدہ قرار دے کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
Bribery
پیری کی یہ بات ہمارے حالات میں بھی درست معلوم ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ فنڈنگ سراسر رشوت ہے اور اس کے پیجھے وہی سرمایہ دار ہوتے ہیں جو حب وطن کے نام پر امریکی سرکار کے بے حد قریب ہوتے ہیں۔ حسین حقانی اور پرویز مشرف کو یہی ادارے نام نہاد لیکچروں کی مد میں لاکھوں ڈالر دیتے ہیں۔۔۔پیری کہتا ہے کہ جب معتوب غیر ملکی سربراہوں کا معاملہ ہو تو معمولی سے معمولی کرپشن بھی انہیں اقتدار سے فارغ کرنے کا بہانہ بن سکتی ہے۔ جیسے نکاراگوا کے صدر ڈینئل اورئیگا کو محروم اقتدار کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو ریگن نے اس کے ڈیزائنر چشمے تک کو اس کے لئے الزام بنا دیا۔ ریگن نے کہا ”ڈیزائنر چشمہ لگانے والا ڈکٹیٹر” حالانکہ عین اسی دوران نینسی ریگن تیل کی صنعت سے وابستہ حلقوں سے ڈیزائنر گاؤن کے تحفے وصول کر رہی تھی اور ان کی رقوم سے وائٹ ہاؤس میں اپنی رہائش کو بنا سنوار رہی تھی۔ اسی طرح جس عالمی رہنماکو اقتدار سے محروم کرنا ہو اس کی معمولی درجے کی عیاشی بھی بھیانک کرپشن قرار دی جائے گی، جیسے یوکرین کے صدر وکٹریانکووچ کا اپنی ذاتی رہائش پر ساؤنا (Sauna) کی تعمیر اتنا بڑا گناہ بن گیا کہ اسے عہدہ صدارت سے فارغ کر دیا گیا۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ صدر اورئیگا اور یانکووچ دونوں عوام کے منتخب صدور تھے، لیکن امریکی حکومت کی آشیرباد پر امریکی اداروں نے انہیں غیر مستحکم کرنے کے لئے کرپشن کے الزامات پر مبنی ایسی مہم چلائی کہ انہیں شدید ہنگامہ آرائی اور پْرتشدد طریقے سے اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔ جب امریکہ نے نکاراگوا میں سی آئی اے کی سرپرستی میں کانترا(مخالفین) کی مہم کو چلایا تو وہاں تیس ہزار لوگ مارے گئے۔ جب امریکہ نے یوکرین میں خانہ جنگی کرائی تو وہاں دس ہزار بے گناہ شہری مارے گئے۔ امریکہ اس کا الزام بھی ماسکو پر لگاتا ہے، لیکن اب امریکہ گوڈے گوڈے کرپشن میں دھنسی ہوئی یوکرینین حکومت کی کرپشن پر خورسند ہے۔ جی ہاں بالکل اسی طرح جس طرح افغانستان میں کرزئی کی کرپٹ حکومت کی مسلسل حمایت جاری رکھی گئی اورکرزئی کے بھائی کی منشیات فروشی کو بھی خند? خسروانہ سے اڑا دیا گیا۔پیری ایک اور مغربی رویے کی نشاندہی کرتا ہے کہ مغربی صحافی کرپشن کے معاملے میں معمول کے سوالات بھی اٹھانے کی زحمت نہیں کرتے۔ اگر کرپٹ حکومت ان کی پسندیدہ حکومت ہو تو محض ”اصلاحات” پر زور دیا جاتا ہے اور ان اصلاحات کے تحت بالعموم لوگوں کی پنشن میں کٹوتی، ضعیفوں کے وظائف میں کمی اور سماجی بہبود کے اخراجات میں تنزل کو روا رکھا جاتا ہے۔
Bribery
پیری ایک اور مثال یوکرین کی منظور نظر حکومت کی منظور نظر وزیرخزانہ نٹالی جیرلیسکو کی دیتا ہے، جس نے یو ایس ایڈز کے فنڈز کی نگرانی اور تقسیم کے لئے اپنا معاوضہ ڈیڑھ لاکھ ڈالر سالانہ مقرر کیا۔ پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیا اور اسے دو لاکھ ڈالر سالانہ تک پہنچا دیا۔۔۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر امریکی صحافی کیسے امریکی سرکار اور اس کے بدمعاش اداروں کے آلہ کار بن جاتے ہیں؟ پیری بتاتا ہے کہ امریکی حکومت صحافتی تنظیموں کو لاکھوں کروڑوں ڈالر دیتی ہے۔ سیاسی جدوجہد کرنے والوں کو ”نام نہاد تربیت” دیتی ہے اور این جی اوز کو امداد دیتی ہے، تاکہ امریکی اہداف کی حمایت حاصل کی جائے اور مخصوص ممالک میں متعین مفادات حاصل کئے جائیں۔ مثلاً یوکرین میں 22فروری 2014ء کی بغاوت سے پہلے بغاوت کے لئے فضا تیار کرنے کے اقدامات پر امریکی ادارے نیشنل انڈوومنٹ فار ڈیماکریسی نے بے تحاشہ مال خرچ کیا اور امریکی کانگریس کو اس ادارے کے لئے سالانہ بجٹ کے طور پر سوملین ڈالر کی منظوری دینا پڑی۔ نیشنل انڈوومنٹ فارڈیما کریسی (NED) جس کا قیام 1983ء میں عمل میں آیا اور اس وقت سے ایک نیو کنزرویٹو کارل گرشین کے زیر انتظام ہے، اس بڑی تصویر کا محض ایک رخ ہے۔ یو ایس ایڈ کی چھتری کے نیچے دوسرے پراپیگنڈہ ذرائع بھی استعمال ہوتے ہیں۔ یو ایس ایڈ کی سالِ گزشتہ کی فیکٹس شیٹ کے مطابق دنیا بھر میں دوست صحافیوں کو ادائیگیوں کی ایک مد بھی موجود تھی اور اس کی ذیلی مدات میں صحافیوں کی تربیت، بہبود، تعلیم، تجارتی ترقی، حمایت کرنے والوں کے لئے استعداد بڑھانے میں مدد وغیرہ وغیرہ کے سلسلے میں رقوم خرچ کرنے کی تفصیل شامل تھی۔ پاکستان کے باخبر لوگ پاکستان میں اس قسم کی امداد وغیرہ کے بارے میں بخوبی علم رکھتے ہیں۔
یو ایس ایڈ کا معاون جارج سورو کا ادارہ اوپن سوسائٹی ہے جو منظم جرائم اور کرپشن کے خلاف پراجیکٹس پر تحقیقاتی صحافت کے حوالے سے بھاری رقوم خرچ کرتا ہے۔ ایسی تحقیقاتی صحافت کو عام طور پر ناپسندیدہ حکمرانوں کا پیچھا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکی حکومت کی نظروں سے اتر جانے والے حکمرانوں کی کرپشن کی تلاش اس تحقیقاتی صحافت کے فرائض میں شامل ہوتی ہے اور اسے ہوا دینا ایسے صحافیوں کا فرض منصبی قرار پاتا ہے۔ یو ایس ایڈ نے انٹرنیٹ پر بلاگ لکھنے والے ایک صحافی ایلیٹ ہگن کو بھی مالی مدد دی تھی۔ یہ وہی صاحب ہیں، جنہوں نے اپنے مفروضات کی بنا پر ملائیشیا کی پرواز 17کے بارے میں دعویٰ کیا تھا کہ اسے روس نے میزائل کا نشانہ بنایا۔ رابرٹ پیری کا خیال ہے کہ کرپشن کے پراپیگنڈے کے ذریعے ولاڈی میر پیوٹن کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی جائے گی۔ پیری کو چونکہ ولاڈی میرپیوٹن سے خصوصی ہمدردی ہے، اسی لئے سارے تجزیئے کا زور اسی پر ہے کون جانے اس میں اور کس کس پر کیچڑ اچھال کر انہیں محروم اقتدار کرنے کی سعی نامشکور کی جا رہی ہوگی۔ عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں می۔