کروڑ لعل عیسن : پاکستان میں سیاسی فرقہ واریت عبور پر ہے۔ مولانا رب نواز

کروڑ لعل عیسن : پاکستان میں سیاسی فرقہ واریت عبور پر ہے۔ جسے مذہبی فرقہ واریت کا نام دے کر اسلام سے محبت رکنھے والے لوگوں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ طالبان کے ستاتھ مزاکرات حکومت کا احسن اقدام ہے۔ جب تک پاکستان میں پڑوسی ملک کی مداخلت بند نہیں کی جاتی امن قائم نہیں ہو گا۔

کراچی میں پکڑے گئے دہشتگردوں نے انکشاف کیا ہے کہ ایران انہیں دہشتگرادنہ کاوائیوں کیلئے باقاعدہ فنڈ مہیا کرتا ہے۔ ملزمان نے یہ بھی بتایا کہ اس سلسلہ میں ہم نے رینجرز اور پولیس اہلکاروں کو بھی خرید رکھا ہے۔ ہمیں علما کے ٹارگٹ پر مامور کیا ہوا ہے۔

ان خیالات کا اظہار اہلسنت ولجماعت کے مرکزی رہنما مولانا رب نواز حنفی ( آف کراچی) نے گزشتہ روز جامعہ دارالعلوم عید گاہ میں پریس کانفرنس اور ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملکی حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ کسی بھی حکومت نے مذہبی فرقہ واریت کی بنیاد اور اصل حقائق جاننے کی کوشش نہیں کی۔ انتشار 79 میں اس وقت جب ایران میں انقلاب آنے کے بعد متنازعہ لٹریچر سامنے آنے پر شروع ہوا جس میں اصحاب رسولۖ اور امہات المومنین کو نشانہ بنا کر سنیت پر یلغار کی گئی۔ 6 سال تک دکھ برداشت کرنے کے بعد شہید ملت مولانا حق نواز جھنگوی نے مسئلہ عوام کے سامنے رکھ کر صدائے احتجاج بلند کیا۔ انہوں نے کہا کہ پتھر مارنے والوں کی کوئی بات نہیںکرتا۔ اور پتھر روکنے والوں پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

کراچی کے ایکسپو سنٹر میں کتابوں کی نمائش میں اسٹال متنازعہ ایرانی کتابوں سے بھرا پڑا تھا لیکن حکومت نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ جبکہ کوئٹہ سے آنے والی انار کی پیٹیوں میں قرآنی صفحات رکھے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مزاکرات خوش آئین ہیں۔ مزاکرات کی سب سے پہلے مخالفت وحدت المسلمین نے کی۔ MQM کی کوئی حیثیت نہیں۔ الزامات کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے حوصلے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ان کے وزیر داخلہ نے پاکستان میں لشکر کشی کی دھمکی تک دے دی ہے۔ ہمارے علما اور کارکنوں کے کراچی میں ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے جس میں MQM ملوث ہے۔ ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلام سے محبت کرنے والوں کو بند گلی میں نہ دھکیلا جائے۔ اس موقع پر قاری حفیظ اللہ ، قاری اطہر ، قاری رمضان و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ واضع رہے کہ اہل سنت والجماعت کے سربراہ نے جلسہ سے خطاب کرنا تھا جس کیلئے غیر معمولی سکیورٹی کے انتظامات کیئے گئے اور خطاب کو سننے کیلئے کارکنوں کی بہت بڑی تعداد تھی لیکن عین وقت پر ان کا دورہ منسوخ ہو گیا جس سے جماعت سے وابستہ لوگوں میں مایوسی پیدا ہوئی۔