اسلام آباد (جیوڈیسک) عدالت عظمیٰ نے ’’لال مسجد آپریشن‘‘ کیس کی سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے پیش کی گئی عملدرآمد رپورٹ مسترد کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد کے حوالہ سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ یہ کیس آج تک معمہ بنا ہوا ہے۔ کیس کو قالین کے نیچے چھپانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے لال مسجد آپریشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 2 اکتوبر 2007ء کے فیصلہ پر حکومت کی جان سے عملدرآمد رپورٹ پیش کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ لال مسجد آپریشن کے دوران قرآن پاک کی بے حرمتی کے حوالہ سے ایف آئی آر درج کی گئی تھی پولیس نے سی ڈی اے کے 20 سے زائد ملازمین سے بھی تفتیش کی تھی لیکن اس حوالہ سے کسی قسم کی کوئی شہادت نہیں ملی۔
درخواست گزار کے وکیل طارق اسد نے رپورٹ پر اعتراض کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ یہ نامکمل ہے، جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ عدالت کے فیصلہ کے پیراگراف چار، سات، تیرہ اور چودہ کو مدنظر رکھ کر بات کریں یہ 2007ء کا حکم ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2009ء کے بعد آج اس کیس کی سماعت ہو رہی ہے، جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آج کو ان پیرگرافس کے حوالہ سے کوئی چیز تو ریکارڈ پرلانی چاہئے تھی، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بہت پرانا معاملہ ہے میرے پاس جو تازہ رپورٹ آئی ہے اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
جس پر فاضل عدالت نے آئندہ سماعت پر فیصلہ کے مذکورہ بالا چاروں پیراگرافس پر عملدرآمد کے حوالہ سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتہ کے لئے ملتوی کر دی۔