ممبئی (جیوڈیسک) بھارت کے 73 ویں یوم آزادی کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نے لال قلعہ کی فصیل سے پاکستان کو بالواسطہ طور پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا، ساتھ ہی بھارتی تاریخ میں پہلی مرتبہ تینوں افواج کے لیے ایک سربراہ بنانے کا بھی اعلان کیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے یوں تو پاکستان کا نام نہیں لیا تاہم پڑوسی ملک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ”کچھ لوگوں نے صرف بھارت کو ہی نہیں بلکہ دیگر پڑوسی ملکوں کو بھی دہشت گردی سے تباہ کررکھا ہے۔ بنگلہ دیش اور افغانستان دہشت گردی سے لڑ رہے ہیں۔ سری لنکا میں بھی چرچ میں بے گناہ لوگوں کو مار دیا گیا۔“وزیر اعظم مودی نے مزید کہا،”آج دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو ایسے میں بھارت خاموش تماشائی نہیں بنا رہے گا۔ بھارت دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھے گا۔ دہشت گردی کو تحفظ فراہم کرنے والے اور ان کی حمایت کرنے والوں کو بے نقاب کیا جانا چاہیے۔ دہشت گردی کے خطرے سے لڑنے کے لیے دنیا کے تمام ملکوں کومل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔“
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ان کا ملک اپنے اوپر کسی بھی جارحیت کا جواب طاقت سے دے گا۔ جبکہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھاکہ کشمیر کے لیے پاکستانی فوج کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ یہاں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان اور جنرل باجوہ کے اس بیان کے بعد وزیر اعظم مودی نے پڑوسی ملکوں بنگلہ دیش اور سری لنکا کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری طرف ایسے وقت میں جب افغانستان کے حوالے سے کئی اہم سیاسی تبدیلیاں ہونے والی ہیں انہوں نے کابل کو ایک واضح پیغام دینے کی بھی کوشش کی ہے۔ انہوں نے افغانستان کے عوام کو یوم آزادی کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا، ”میں لال قلعہ کی فصیل سے افغانستان کے عوام کو 100ویں یوم آزادی پر مبارک باد دیتا ہوں۔“
وزیر اعظم مودی نے بھارتی افواج کے حوالے سے بھی ایک بڑا اعلان کیا۔ اب تینوں افواج کا ایک سربراہ ہوگا۔ اسے چیف آف ڈیفنس اسٹاف(سی ڈی ایس) کہا جائے گا۔ بھارتی وزیر اعظم نے کہا، ”ہمارے ملک میں فوج میں اصلاحات پر ایک طویل عرصے سے غور کیا جا رہا ہے۔ کئی کمیشن بنائے گئے اور ان کی رپورٹیں آئیں اور ان سب میں ایک بات کہی گئی کہ ہماری تینوں افواج میں کوارڈی نیشن تو ہے لیکن آج جس طرح دنیا تبدیل ہورہی ہے، جنگ کی شکلیں اور دائرے بد ل رہے ہیں۔ اس کے مدنظر بھارت کو ٹکڑوں میں سوچنے سے کام نہیں چلے گا۔ ہماری پوری فوج کو مشترکہ طور پر طاقت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ کوئی ایک بھی پیچھے رہے تو کام نہیں چلے گا۔ اس لیے میں آج لال قلعہ سے یہ اہم اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا عہدہ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔“
بھارت میں بری، بحری اور فضائی تینوں افواج کے الگ الگ سربراہ ہوتے ہیں۔ بھارتی آئین کے مطابق ملکی صدر تینوں افواج کا’سپریم کمانڈر‘ ہوتا ہے۔ چیف آف ڈیفنس اسٹاف بری، بحری یا فضائی کا فور اسٹار افسر ہوگا جو حاضر سروس سربراہوں میں سب سے سینئر ہوگا اور وہ وزیر اعظم کے ساتھ براہ راست رابطہ رکھے گا۔ ملک کی قومی سلامتی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ترجیحات طے کرنا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگا۔ یہا ں ذرائع کے مطابق موجودہ آرمی چیف جنرل بپن راوت پہلے سی ڈی ایس ہوسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ سن 1999کی کارگل جنگ کے بعد تشکیل کردہ ریویوکمیٹی نے سی ڈی ایس کی سفارش کی تھی۔ تاہم اس نے سی ڈی ایس کو وزیر دفاع کے ساتھ براہ راست رابطہ رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس وقت کے وزیر دفا ع منوہر پاریکر نے بھی اس کی پر زور تائید کی تھی۔ کارگل ریویو کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اس وقت کے نائب وزیر اعظم ایل کے ایڈوانی کی سربراہی میں ایک وزارتی گروپ نے سی ڈی ایس کی سفارشات پر غور کیا تھا لیکن مسلح افواج اور بیوروکریسی کے بعض حلقوں کی جانب سے اس تجویز کی مخالفت کی وجہ سے اتفاق رائے نہیں ہوسکا تھا۔
وزیر اعظم کے آج کے اعلان کاسابق آرمی چیف جنرل وید پرکاش ملک، جو کارگل جنگ کے دوران آرمی چیف تھے، نے زبردست خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا،”سی ڈی ایس کے عہدے کے قیام کے سلسلے میں تاریخی قدم اٹھانے کے لیے، وزیر اعظم مودی، آپ کا بہت بہت شکریہ۔ اس قدم سے ہماری قومی سلامتی مزید موثر ہوجائے گی۔ اس سے مشترکہ اقدام اور رابطے کو بہتر بنانا یقینی ہوجائے گا۔ سیلوٹ۔“
یوں تو یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم کی روایتی تقریر عام طورپر تیس منٹ کی ہوتی ہے لیکن وزیراعظم مودی نے 93 منٹ طویل تقریر کی، جس میں اپنی حکومت کے بہت سارے کارناموں کا ذکر کیا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بھارت اگلے پانچ برسوں میں پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت کا ہدف حاصل کرلے گا۔ تاہم یہاں اقتصادی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ہدف آسان نہیں ہے۔ بالخصوص اس حالت میں جب بھارت کی اقتصادی حالت اچھی نہیں ہے۔
سوسائٹی آف انڈین آٹوموبائل مینوفیکچررز کی رپورٹ کے مطابق پچھلے چند ماہ کے دوران صرف آٹو موبائل سیکٹر میں ہی تقریباً ساڑھے تین لاکھ مستقل اور عارضی نوکریاں ختم ہوگئی ہیں جب کہ دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کی ملازمتوں پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) کی رپورٹ کے مطابق سن 2018 کے دوران تقریباً گیارہ ملین بھارتی شہریوں کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ صابن، تیل اور بسکٹ جیسے عام ضرورت کی اشیاء بنانے والی (ایف ایم سی جی) کمپنیاں بھی اپنی فروخت میں گراوٹ کی وجہ سے پریشانی محسوس کر رہی ہیں۔