تحریر : رفعت خان امی !میں پھر اول آگئی۔۔حورالعین اسکول سے وآپس آکردوڑتے ہوئے اپنی مما کے پاس باورچی خانے میں آگئی تھی دیکھا امی میں نا کہتی تھی میں آٹھویں جماعت میں بھی اوّل آؤں گی بھیا مجھے ایسے ہی نکمی کہتا رہتا ہے ،،،حورالعین نے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔ نکمی تو تم ہو ، جہاں تک میرا حساب کہتاہے تم پاس تو ہو گئی ہوگی مگر اوّل آنے والا سفید جھوٹ توتم نا ہی بولو۔۔ سائم بھی باورچی خانے میںآ دھمکا تھا۔تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ااس بار میں نا صرف اسکول میں اوّل آئی ہوں بلکہ بورڈ میں بھی اوّل آئی ہوں حورالعین نے نتیجہ امی کو پکڑاتے ہوئے جواب دیا۔مسز اشتیاق جو دونوں بچوں کی گفتگو سن کر مسکرا رہی تھیں نتیجہ دیکھنے لگی۔میں تو اپنے حساب سے کہہ رہا۔۔۔۔ اپنے حساب کوتو آپ اپنے پاس ہی رہنے دیں بھیا! اگر آپ کا حساب اتنااچھا ہوتا تو دہم جماعت میں آپ کوریاضی کی سپلی کیوں آتی؟ بات کاٹتے ہوئے حورالعین نے اپنی عینک کے اوپر سے سائم کو گھورتے ہوئے جواب دیا۔حورالعین کے جواب پر سائم کو ہار ماننا پڑی۔واہ میری بیٹی نے تو بہت اچھے نمبر حاصل کیے ہیں مسزاشتیاق نے حورالعین کو گلے لگاکرخوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہاتمھارے بابا بہت خوش ہوں گے۔ آخر بہن کس کی ہے ایک گلاس شربت مجھے بھی دینا سائم نے فریج سے شربت کا جگ نکالتی ہوئی حورالعین کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے مکھن لگانے کے ساتھ فرمائش بھی کر ڈالی۔
جی بھیا ضرور۔ دونوں بہن بھائیوں میں بہت پیار تھامگر اکثر سائم حورالعین کو چڑادیا کرتا تھا یہ سائم کی فطری عادت میں شامل تھا حورالعین بہت سمجھدار اور ہونہار بچی تھی اپنے وطن سے بے لوث بے پناہ پیار کرتی تھی حورالعین کا ایک مقصد تھا کہ اپنے ملک وقوم کی خدمت کر ے گی۔وہ اپنے ملک کے لیے بہت سے جذبات رکھتی تھی حورالعین کا ارادہ فوج میں بھرتی ہونے کا تھا۔حورالعین ب4146ے ہی وطن کے لیے بہت حساس دل رکھنے والی واقع ہوئی تھی ،ملک و قوم کے لیے یوں سوچتی تھی کہ فاطمہ جناح کا گماں ہونے لگتا تھا۔حورالعین اپنے والدین کے توسط سے جشنِ آزادی کے حوالے سے ہر سال غریب بچوں کے لیے ایک پروگرام منعقدکروایاکرتی اور بچوں میں نالج اور انعامات تقسیم کرواکے بہت خوشی محسوس کرتی تھی،والدین حورالعین کی جہاں تک ممکن تھا مدد کرکے حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ حورالعین بظاہر بہت کم گو تھی مگر اس کے اندر بہت کچھ سمایا ہوا تھا۔اسکول میں اساتذہ اور ہم جماعت دوستوں میں ہر دل عزیز تھی۔حوالعین کے پاس اس کا ایک ٹیڈی بئیر کھلونا جو کہ حورالعین کو بہت پسند تھا جو کہ بچپن سے اس کے پاس تھا جس سے حورالعین ہر بات شئیر کرتی اور حورالعین کی ہر بات کے جواب میں ٹیڈی بئیر میوزک دھن،،وطن کی مٹی گواہ رہنا،،بجتی۔حورالعین نے نویں کلاس بھی اچھے نمبروں سے پاس کرلی تھی اور سائم بھی میٹرک پاس ہو گیاتھا۔اشتیاق صاحب بہت خوش تھے۔
اب کی بار ہم جو آزادی شو کریں گے اْس میں سب کو وطن عزیز کی مٹی کی خوشبو سے متعار? ف کروائیں گے سونا اگلتی دھرتی کا سہی مفہوم سمجھائیں گے اور کچھ عہد لیں گے تاکہ ہمارے ننھے منے ساتھیوں کو مستقبل میں ایسی شرمساری نا اٹھانی پڑے کہ ہم نے اس دھرتی ماں کو اس کی گود ،سایہئ ،اناج،نام پہچان کے عوض کیادیا میں چاہتی ہوں میری طرح ملک کے لیے سب کے دل سچے جذبات سے محبت سے لبریز ہوں حورالعین ٹیڈی بئیرکے ساتھ آنے والے پروگرام کی سوچ بیچار کر رہی تھی۔حورالعین کا ہاتھ ٹیڈی بئیر کو لگتے ہی فوراً پاکستانی دھن بج اْٹھی،،وطن کی مٹی گواہ رہنا،،تو حورالعین مسکرانے لگی۔ہاہاہاہاہاہا تم اْستانی بننے کی کوشش میں ہو ناں؟پوری موسی لگو گی بچوں کو پڑھاتے ہوئے ہاہاہاہا۔سائم دروازے کی آوٹ سے حورالعین کی باتیں کان میں پڑتے ہی کمرے میں آدھمکاتھا۔سائم بھیا آپ کچھ بھی کہو میں اپنے حوصلے اور ہمت سے پیچھے ہٹنے والی نہیں حورالعین نے فخریہ انداز میں سر بلند کرتے ہوئے کہا اچھااستانی جی آپ شاید اس قدر مصروف ہو گئی تھیں کہ آپ کو اپنی اسکول کی گاڑی کا ہارن تک سنائی نہیں دیا بندہ136پن ناچیز آپ محترمہ کو یہی اطلاع دینے حاضر ہوا تھا۔۔حورالعین نے بئیر کو ہلکا سا دبا تے ہوئے اللہ حافظ کہا بئیر نے فوراً ،،وطن کی مٹی گواہ رہنا ،،کہہ کر حورالعین کی تمام باتوں کی تائید کر ڈالی۔
Terrorism
حورالعین کے اسکول روانہ ہونے کے پندرہ منٹ بعد ایک خبر نے سائم کی پوری فیملی کے ساتھ ساتھ گھر کے دروریوار بھی ہلا کر رکھ دیئے۔ایک بدترین دہشتگردی میں حورالعین بھی نشانہ بن چکی تھی جس جگہ بم دھماکہ ہوا تھا بد قسمتی سے حورالعین کی اسکول گاڑی بھی نشانے کی زد میں آچکی تھی کافی بچیاں زخمی جبکہ ڈرائیور اورحورالعین سمیت چار بچیاں موقع پر شہید ہو چکے تھیں۔حورالعین کی اچانک موت پر ہر آنکھ اشک بار تھی والدین صدمے سے نڈھال ہو چکے تھے۔حورالعین کے تمام ہم جماعت دوست دکھ اور خوف سے گم صم ہو گئے تھے سائم ٹیڈی بئیر کو گلے لگا کے گڑگڑا کر رو رہا تھا۔حورالعین میری پیاری بہن میں وعدہ کرتا ہوں تمھیں کبھی نہیں ستاؤں گا پلیز واپس آجاؤ۔مگر حورالعین محب وطن بہادربیٹی تمام تر جذبے دل میں دبائے اپنے وطن کی گود میں سونے کے لیے رخت سفر باندھ چکی تھی۔جب حورالعین کو دھرتی ما ں کی گود میں اْتارا جا رہا تھا تو سائم نے شدید دکھ اور جذبات سے دل برداشتہ ہوکرٹیڈی بئیر کو گلے لگاکر وطن کی مٹی کوگواہ بناتے ہوئے عہد کیا کہ وہ اپنی بہن کا ہر خواب پورا کرے گا حورالعین جیسا جذبہ لاکھوں بچوں کے دل میں بیدار کرے گا جو بچے دہشت گردی سے اس وقت خوف ذدہ ہوئے بیٹھے ہیں ان کے دلوں میں وطن کی محبت کا ایسا جذبہ بھروں گا کہ ہمارے بچوں کی بہادری کے آگے دہشت گردوں کے ہتھیار کمزور پر جائیں گے۔ ٹیڈی بئیر نے فوراًجوا ب دیا،
،، وطن کی مٹی گواہ رہنا ،، سائم عہد نبھانے کے عزم سے پروگرام کی تیاری کرنے لگا۔ پروگرام کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں سائم اور حورالعین کے سب دوستوں نے اس بار بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ ،حورالعین کو اسکول کی جانب سے وطن سے محبت اور اعلیٰ کارکردگی پر خراجِ تحسین تمغہ پیش کیا گیا جو کہ والدین نے فخر سے وصول کیا۔ پْرجوش تقریر کے بعد سائم ایک نظم سنانے ٹیڈی بئیر کے ساتھ اسٹیج پر نمودار ہوا۔ سائم نظمسناتا اورٹیڈی بئیر ،، وطن کی مٹی گواہ رہنا،، کہہ کر نظم کا مصرا پورا کرنے میں سائم کاساتھ دیتا ، نظم: وطن کی مٹی گواہ رہنا بابا کے دل کاتوْتھی ٹکڑا مما کی راج دلاری گڑیا حوروں میں تیرانام آیا شہادت کا رْتبہ نصیب پایا وطن کی مٹی گواہ رہنا وطن سے تیری لگن تھی سچی کیسے بھولے گی دنیاساری ملک و قوم کی توْرہنمْا تھی توْسرخرو ہے وطن کی بیٹی وطن کی مٹی گواہ رہنا کیا ہم نے کاٹا کیا ہم نے بویا کسے ہنسایاکسے رْلایا کسے مٹایاکسے گنوایا وطن کی مٹی گواہ رہنا وطن کی مٹی گواہ رہنا
سب کی آنکھیں خوشی اور اداسی کی ملی جلی کیفیت میں اشک بار تھیں۔ھال پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا تھا۔پاکستانی بچوں کا جوش و ولولہ قابلِ دید تھا اور ان کے دلوں میں بھرایہ جذبہ حورالعین کی مرہونِ منت تھا۔دہشت گردوں کو بہت بری مات ہوئی تھی ایک حورالعین کے جانے کے بعد دھرتی کے بہت سے تار ے حب الوطنی کا جذبہ لئے بیدار ہوئے۔ اس سب کا سہرا سائم کے سر بندھا۔ اگرسائم ہمت ہار دیتا تو حورالعین کا خواب پورے کرنے کیلئے ان بچوں میں جرات حوصلہ پیدانا ہوتا۔