ٹیکسلا (ڈاکٹر سید صابر علی )انصاف کا حصول حوا کی بیٹی کے لئے خواب بن گیا قانون کے محافظوں نے قانون کوکھلواڑ بنا دیا ۔غریب ماں باپ انصاف کے لیے در در پہ ٹھوکریں کھانے پر مجبور۔پولیس کے عدم تعاون نے والدین کو بیٹے کے حصول کے لیے تاوان میں بیٹی کی قربانی دینا پڑی ظالم شوہر نے ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے اور 9 سال تک بہن بھائی اور ماں باپ سے جدا رکھا ظالموں کے چنگل سے بچ کر 4 بچوں کو شوہر کے پاس چھوڑ کر لاچار بے بس ماں واپس والدین کے پاس پہنچ گئی ، ظالموں نے پیچھا نہ چھوڑا میری بہن کے شوہر کو پولیس کی ملی بھگت سے اغواء کر لیا شوہر کی جانب سے تاوان میں واپس گھر آنے کی دھمکی بصورت دیگر پورے خاندان کو جان سے مارنے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں۔متاثرہ خاتون نے انصاف کے حصول کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا تنسیخ نکاح کے دعویٰ سمیت اثر و رسوخ کے حامل ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ ۔
متاثرہ خاندان کے جان و مال کے تحفظ کے لئے مقامی سیاسی زعماء میدان میں اتر آئے گھر کے گرد و نواح میں حفظ ما تقدم کے طور پر ٹھیکری پہرا لگا دیا ۔متاثرہ لڑکی اور غریب والدین کی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار ،آئی جی پنجاب اور چیف جسٹس آف پاکستان سے انصاف کی دہائی۔تفصیلات کے مطابق واہ کینٹ کے دیہی علاقہ یونین کونسل گڑھی افغاناں کی رہائشی زوبیہ دختر سمندر خان نے اپنے بوڑھے ماں باپ کے ہمراہ اپنی درد ناک داستان میڈیا کو سناتے ہوئے بتایا کہ 9 سال قبل اس کے کمسن 5 سالہ بھائی فیصل کو ایاز ولد آدم خان ساکن وزیر آباد نے اغواء کیا اور کافی عرصے تک حبس بے جاء میں رکھا جبکہ بعد ازاں اس شرط پر کہ اگر میں اس کے ساتھ شادی کروں تو تاوان میں بھائی کو چھوڑ دیا جائے گا اس حوالے سے ہم نے بابت اغواء برائے تاوان درخواست برخلاف ایاز ولد آدم خان تھانہ فارورڈ کہوٹہ ضلع باغ میں مقدمے کا اندراج کیا گیا لیکن پولیس کی عدم دلچسپی اور اثر و رسوخ کے حامل افراد کی ملی بھگت سے انصاف نہ مل سکا جس کے بعد مجبور ہو کر ایاز خان کی شرط ماننی پڑی جبکہ اس ضمن میں ایک تحریری دستاویزات رو برو جرگہ گواہان تیار کی گئی جس کی اصل کاپی بطور ثبوت ہمارے پاس موجود ہے جس میں واضح طور پہ بھائی کے اغواء کا ذکر کیا گیا اور تاوان میں شادی کا تذکرہ درج ہے متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ شادی کے وقت اس کی عمر 14 سال تھی اس کے باوجود ظالموں نے رتی بھر رحم نہیں کھایا خاتون نے اپنی درد بھری داستان سناتے ہوئے کہا کہ ظالم شوہر نے شادی کے بعد 9 سال تک ماں باپ سے جدا رکھا اور ملنے پر مکمل پابندی لگا دی جبکہ اس دوران مختلف طریقے سے مجھے اذیتیں دیتا رہا ،
شراب و شباب کا رسیا میرا شوہر آئے روز غیر عورتوں کو گھر بلاتا اور میری موجودگی میں ان کی عزتوں سے کھیلتا جبکہ علاقے کے چوہدری اعجاز کو گھر بلاتا اور شراب کے نشے میں دھت ہو کر مجھے سے بدفعلی کرنے کے لئے دبائو ڈالتا اس کا کہنا تھا جب میں اس گھنائونے فعل سے منع کرتی تو میرے ساتھ نہ صرف مار پیٹ کرتا بلکہ مختلف طریقوں سے مجھے اذیتیں پہنچاتا میں یہ سب ظلم ایک مشرقی خاتون ہونے کے ناطے عرصہ دراز سے سہہ رہی ہوں لیکن آخر کب تک اس ظلم کی چکی میں پستی ظلم کی انتہاء پر بالآخر میں نے اپنے معصوم بچوں کو شوہر کے گھر چھوڑ کر وہاں سے کوچ کرنے میں ہی اپنی نجات سمجھی اور اپنے والدین کے گھر گڑھی افغاناں آ گئی جہاں پہنچنے کے بعد ایک مرتبہ پھر میرے ظالم شوہر نے اپنے مسلحہ ساتھیوں سمیت متعدد مرتبہ میرے والدین کے گھر ہلہ بولا جس پر مقامی سیاسی زعماء نے ہماری بھرپور داد رسی کی اور ظالم شخص اور اس کے چیلوں سے بچانے کے لئے ہمارے گھر کے باہر ٹھیکری پہرہ لگا دیا گیا۔اس نے بتایا کہ ایاز نے پولیس کی ملی بھگت سے میرے بے گناہ بہنوئی بابر کو زبردستی اغواء کر لیا اور اب ہم پہ دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ اگر بابر کی زندگی مطلوب ہے تو واپس گھر آ جائو جبکہ میں اس ظالم شخص کے پاس دوبارہ نہیں جانا چاہتی جسے نہ صرف اپنی عزت کا خیال ہے بلکہ اس نے خاندان کی عزت بھی دائو پہ لگا رکھی ہے متاثرہ خاتون نے مطالبہ کیا کہ عزت کا بیوپار کرنے والے ظالم شوہر اور اس کی پشت پناہی کرنے والے علاقے کے چوہدری اعجاز سے میری جان خلاصی کرائی جائے ۔