تحریر : شہزاد حسین بھٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت جب سے بر سراقتدار آئی ہے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کی بجائے زبانی جمع خرچ پر ذیادہ زور دیا جا رہا ہے ۔ بے جا ذاتی تشہیر اور دکھاوا ملک و ملت کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اشرافیہ کی عوامی مسائل سے عدم دلچسپی اور غیر سنجیدگی کو آشکار کر رہا ہے ۔یوں لگتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی اپنی پیش ر و حکو مت پیپلز پارٹی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ” لُٹوتے پھُٹو “کے فلسفے پر عمل پیرا ہے موجودہ حکومت نے برسراقتدار آتے ہی اعلان کیا تھا کہ توانائی کا بحران حکومت کی اولین ترجیح ہے اور وہ اسے ترجعی بنیادوں پر حل کرینگے ۔بد قسمتی سے ڈ ھائی سال گزرنے کے باوجود توانائی کا بحران حل نہ ہو سکا اور نہ ہی اس میںبہتری کے آثار دیکھائی دیئے ۔نندی پور پاور پراجیکٹ جسکی تعمیر کے لیے میاں شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہو ا تھا کہ اس پراجیکٹ کی مشینری کراچی پورٹ پر زنگ آلودہو رہی ہے اور اسے کلیئر نہیں کیا جارہا اگر وہ بروقت کلیئر ہو جائے تو پنجاب میں بجلی کا منصوبہ بر وقت مکمل ہو سکتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے فورا بعد مشینری کو کراچی پورٹ سے کلیئر کرا کے نندی پو ر پاور پرا جیکٹ منتقل کر دیا گیا ۔وزیرا عظم میاں نواز شریف نے پاور پلانٹ کے پہلے یو نٹ کا افتتاح مئی 2014 ء کو کیا تھا مگر ناقص مشینری اور بد انتظامی کے باعث پاور ہاوس کوئلے پر صحیح انداز میں اب تک چلایا نہ جا سکا ۔اب ڈیزل پر منتقل کرنے کے لیے فزیبلٹی رپورٹ بنائی جا رہی ہے۔ نتائج ندارد ! حکومت نے برسر اقتدار آنے کے فورا بعد عوامی مسائل کے حل کی طرف فوری توجہ دینے کی بجائے کرڑوں روپے کے فنڈز اپنی ذاتی تشہیر کے لیے خرچ کرنا شروع کر دیئے ۔شہباز شریف سیلابی پانیوں میں تصویریں بنواتے ہیں اور نواز شریف سر کاری دوروں میں ملکی وسائل کا بے دریغ ضیاع کر رہے ہیں۔
حکو متی وزرا اور وزیر مملکت ذاتی تشہیر اور خودنمائی میں اپنے پیش روں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کسی سے پیچھے نہیں ہیں میرے ایک دوست کے مطابق این اے 57 اٹک سے مسلم لیگی وزیر مملکت آج کل ضلع اٹک میں اپنی ذاتی تشہیر پر اور ا پنے بیٹے کو پروموٹ کرنے کے لیے سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں ۔تعمیراتی یا فلاحی کاموں کی بجائے پہلے سے جاری یا موجودہ سکیموں پر جا بجا 6×6 فٹ کی دیو قامت ماربل کی تختیاں لگوائی جا رہی ہیں ایک تختی کی لکھائی کا خر چ چالیس سے پچاس ہزار روپے ہے جبکہ ان تختیوں کو نصب کرنے اور قیمتی ماربل لگانے کا خرچ ڈھائی سے تین لاکھ روپے ہے ۔ان تختیوں پر وزیر موصوف کے علاوہ انکے بیٹے کا نام بھی خاص طور پرلکھوایا جاتاہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کو ئی عوامی،سماجی یا حکومتی عہدے دار ہوں اور انکی عوام کے لیے بے لوث اور قابل قدر خدمات ہوں۔
Attock Medical College
یادرہے کہ مذکورہ وزیر عرصہ دراز سے اٹک کے حلقے سے مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔اور نواز شریف سے قربت بھی رکھتے ہیں مگر بد قسمتی سے یہ اپنے ضلع کے لیے کوئی قابل قدر جامع منصوبہ ،میگا انڈسڑی یا پراجیکٹ منظور نہ کروا سکے کہ جس سے اٹک اور گردو نواح کے لوگو ں کو روزگار میسر آسکے ۔اٹک میں ٹریفک کے بے پناہ اضافے کی وجہ سے موجودہ سڑکیں ناکافی ہیں اور شہر کو ایک سر کلر روڈ کی ضرورت ہے۔میڈکل کالج کا قیام اور ڈاکٹروں کی کمی کو پورا نہ کیا جا سکا ہے ۔سرکاری ہسپتال میں آرتھوپیڈک سرجن تک دستیاب نہیں ہیں ۔کسی حادثے کی صورت میں زخمیوں کو راولپنڈی منتقل کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اکثر راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔
قارئین ۔ اٹک میں عوامی مسائل کا ایک سمندر ہے لیکن اہم مسائل حل کرنا حکومت اور حکومتی نمائندوں کا کام ہے ۔ جبکہ ان حالات میں کروڑوں کے اخراجات سے ناموں کی تختیاں لگوانا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ایک کہاوت ہے کی عظیم لوگ ہمیشہ اپنے کارناموں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں جبکہ کتبے ہمیشہ قبروں پر ہی اچھے لگتے ہیں۔اٹک کو کتبوں کی نہیں عملی کاموں کی ضرورت ہے نواز شریف دن بدن اپنی پارٹی اور اپنے وزرا ء پر اپنی گرفت کمزور کرتے جارہے ہیں اور وزراء جونکوں کی طرح حکومتی خزانے کو چوستے جا رہے ہیں خدارا دکھاوا چھوڑئیے اور عملی اقدامات کریں ۔قومی خزانے کو وہاں ہی استعمال کریں جہاں اسکی حقیقی اور اشد ضرورت ہے اگر آپ واقعی اس ملک کے ساتھ مخلص ہیںتو اس ملک کی اٹھارہ کروڑ آبادی کی حالت زار کو بہتر بنائیے انہیں بنیا دی حقوق دیجئے تاکہ وہ ” گو نواز گو” جیسے نعرے لگانے چھوڑ دیں ۔اور اگر آپ یہ سب نہیں کر سکتے تو پھر ہٹ جائیں اور دوسروں کو موقع دیں۔
ہمارے ہاں کوئی شخص وزارت تو دور کی بات نائب قاصد کی سیٹ بھی چھوڑنا نہیںچاہتا۔ قابل تحسین ہیں سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور جنہوں نے موجودہ حکومت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے گورنر شپ سے استعفاء دے کر سب کو حیران کر دیا۔ چوہدری سرور نے بجا فرمایا کہ پاکستان میں لینڈ مافیا گورنر سے زیادہ طاقتور ہے۔گورنر ہوتے ہوئے بھی کسی کو انصاف نہیں دلوا سکا۔ حکومتی صفوں میں گھسے ہوئے لینڈ مافیا نے نواز حکومت کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا یا ہے اسکا بدلہ عوام آیندہ آنے والے الیکشن میںنواز شریف مخالف ووٹ دے کر چکائیں گے۔اٹک سے تعلق رکھنے والے وزیرمملکت کا گھر (نائن زیرو) کی طرح لینڈمافیا کی پناہ گاہ بن چکا ہے۔ حتکہ اس لینڈ مافیا سے صحافی بھی محفوظ نہ رہ سکے۔
Land Mafia
ایک غریب اور مفلوک الحال مقامی صحافی سردار مشتاق احمد صدیقی کا کل اوڑنا بچھونا ٥ مرلے کا مکان تھا جو اس کے والد نے ریٹارمنٹ کے بعداپنے بیٹے کے لیے چھوڑا تھا۔حکومتی لینڈمافیا گروہ سے مقامی صحافی کا گھر گھی محفوظ نہ رہ سکا۔ رات کی تاریکی میں اس کے مکان کے ایک حصے پر قبضہ کر کے مقامی صحافی کو عدالتی کاروائی پر مجبور کر دیاگیاتاہم بااثر لینڈمافیا مقامی عدالتوں پر بھی اثرانداز ہونے سے باز نہیں آ رہی۔ کل تک جنکے پاس سائیکل بھی نہیں تھی وزیرمملکت کی چھتری کے نیچے لوٹمارا ور کرپشن کے ذریعے ڈھائی سالہ دور حکومت میںانہوں نے عالیشان بنگلے، گاڑیاں، بینک بیلنس اور نہ جانے کہاں کہاں جائیدادیںبنا لیں۔
ٹیوب ویل آپریٹر کی معمولی آسامی پر بھرتی کے لیے ایک ایک لاکھ رشوت لی جاتی رہی۔ علاوہ ازیں پٹواریوں، رجسٹری محرروں اور دیگر اہم پوسٹوں پر تعینات اہم افراد سے ماہانہ بھتے اوردیگر لوٹمار کی بازگشت ہر طرف سنائی دے رہی ہے مگر ن لیگ کی اعلی قیادت کے کان میں جوں تک نہیں رینگ رہی۔اگر یہی حال رہا تو اٹک سے ن لیگ کا مکمل صفایا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ مذکورہ وزیر مملکت کے سگے بھائی انکو سنگین الزامات کی بنیاد پر چھوڑ کر چلے گئے ہیںاور ن لیگ کے نظریاتی ورکر تیزی سے تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں۔
ہماری موجودہ جمہوری حکومت اور نام نہا د قومی لیڈر شپ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ انتہائی نا اہل ہیں وہ مسائل کا ادراک نہیں کر سکتے یا پھر انہیں حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ صرف اپنے سیا سی مفادات ،کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کو تحفظ دینے کے لیے ایک ہی چھتری تلے اکھٹے ہو جاتے ہیں ۔کاش یہ عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی اس طرح سر جوڑتے تو آج ملک دنیا کا عظیم ٹائیگر ہوتا ۔یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ اب بھی ان سیاسی شعبدہ بازو کے چنگل سے آز اد ہو نے کی کو شش کر ینگے یا اسی طرح اپنے مسائل کی راگنی الاپتے رہیں گے۔