سعودی عرب مسلمانوں کے مرکزی مذہبی و روحانی مقامات کا حامل ملک ہے جس نے جزیرہ نمائے عرب کے تقریباََ اسی فیصد رقبے کو گھیراہے اور کم و بیش آٹھ لاکھ اڑسٹھ ہزارمربع میل کے علاقے میں پھلاہے۔کویت،عراق،اردن اور اسرائیل اس ملک کے شمال میں واقع ہیں، سعودی عرب کے مشرق میں قطر،متحدہ عرب عمارات،عمان اور خلیج فارس ہیں،جبکہ عمان کا کچھ حصہ سعودی عرب کے جنوب مشرق میں بھی موجود ہے،جنوب اور جنوب مغرب میں یمن کا ملک ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر اوراسکی خلیج واقع ہیں۔”ریاض ”اس ملک کا دارالحکومت ہے ۔آل سعود اس خطہ پر اٹھارویں صدی سے حکمران چلے آرہے ہیں چنانچہ سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد سے اس حکمران خاندان کے حوالے سے اس ملک کو”سعودی عرب”کانام دے دیاگیا۔خلافت عثمانیہ کے اختتام کے بعد طوائف الملوکی نے اس سرزمین میں گھر کر لیااور مغربی استعمار نے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے بادشاہوں کے درمیان انارکی پھیلائے رکھی اور قتل و غارت گری کابازارگرم رہا۔1923کو برطانیہ کی حکومت نے یہاں کے تمام حکمران بادشاہوں کو ایک کانفرنس میں اکٹھاکیاتاکہ معاملات کے حل کے ذریعے ان کے درمیان کسی صلح کرائی جاسکے لیکن سامراج کی خواہشات کے عین مطابق یہ کانفرنس بغیر کسی نتیجے کے اختتام پزیر ہوگئی اور حکمرانوں کے درمیان اختلافات اور شدت اختیارکرگئے۔
کانفرنس کی ناکامی کے بعد 8جنوری1926کو عبدالعزیزبن سعود نے سرزمین حجاز میں اپنی بادشاہت کا باقائدہ اعلان کردیا۔1927 کو اس نے نجد کے علاقوں پر بھی اپنے حق تسلط کاعلان کیااوریوںسلطنت سعودی عرب کا باقائدہ آغاز23 ستمبر 1932کو ہوا جب ایک شاہی فرمان کے ذریعے نجداورحجازکی دوریاستوں کو متحد کر کے تو ”سعودی عرب)المملکة العربیہ السعودیہ)”کاایک ہی نام دے دیاگیا۔برطانیہ نے،جسے عثمانیوں کی خلافت اس لیے تسلیم نہیں تھی کہ وہ خلاف جمہوریت تھی، سعودی عرب پرابن سعودکی بادشاہت کو تسلیم کر لیا۔آل سعود کو یہاں کی حاکمیت اعلی میسرآگئی۔داخلی طور پر بادشاہت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی اور یہاں کے حکمران نے ”سلطان”کی بجائے باقائدہ سے ”بادشاہ” کہلواناشروع کردیا۔1933میں بادشاہاہت کی سند پر آخری مہر بھی ثبت ہو گئی جب ابن سعود نے اپنے بیٹے ”سعود”کواپناجانشین ولی عہدمقررکردیا۔دنیابھرکی ”جمہوریتوں”نے اس بادشاہت کو تسلیم کرلیاحالانکہ اس وقت تک سعودی عرب لیگ آف نیشنزکارکن بھی نہیں بناتھا۔ابن سعود کے انتقال کے بعد9نومبر1953اسکابیٹاسعودبادشاہ بنااور دوسرابیٹاشاہ فیصل ولی عہد مقررہوگیا۔لیکن مملکت کے مقتدرحلقوں کی آشیرباد سے 2نومبر1964کو سعودکو برخواست کر کے تو شاہ فیصل کو بادشاہ بنادیاگیا۔یہ حکمران اپنی مملکت سمیت کل امت مسلمہ کے لیے سایہ رحمت ثابت ہوا،اس نے جہاںنظم مملکت کو جدیدخطوط پراستوارکیااور بہت ساری اصلاحات کیںوہاں خاص طورپربین الاقوامی دنیامیں مسلمانوں کے جراتمندانہ کردار کی نمائندگی کی۔طاغوت نے اسے بہت جلد موت کی نیندسلادیااور اس صالح حکمران نے شہادت کا منصب عظیم حاصل کیا۔
سعودی عرب دنیا میں ایک عرب اور اسلامی ملک کی پہچان رکھتاہے،عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس کا تاسیسی رکن ہے ۔1960کی دہائی میں انقلابی معاشی ترقیات کے باوجود اس ملک نے اپنی قومی ،ثقافتی اور مذہبی شناخت تبدیل نہیں کی، لیکن دولت آجانے سے اتناضرور ہواہے کہ اونٹوں اور پیدل چلنے والے راستوں کی جگہ بڑی بڑی شاہراہوں اور ہوائی اڈوں نے لے لی ہے۔سعودی عرب کااندورنی حصہ دنیاکاسب سے بڑا ریگستان ہے اور یہ لق و دق صحراکم و بیش پچیس ہزارمربع میل کے علاقوں میں پھیلاہے۔یہاں کاسبزہ افریقی صحرائی زراعت سے مستعارہے،صحرائی بوٹیاں یہاں کے جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔بہت کم علاقوں میں سبزہ نظر آتاہے جبکہ کھجوریہاں کا بہت مشہور پھل ہے جس کے باغات سرسبزعلاقوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔یہاں کے صحراؤں میں بھیڑیے،لگڑبھگے،لومڑیاں،شہدکی مکھی،بجو،نیولا،کانٹوں والا جانور سیہ،بابون(کتے کی تھوتھنی جیسے منہ والاجانور)،صحرائی خرگوش اور صحرائی چوہے جو عام چوہوں سے بڑے ہوتے ہیں پائے جاتے یں۔جنگلات نہ ہونے کے باعث بڑے جانور یہاں عنقا ہیں اور ماضی میں اگر کہیں تھے بھی تو اب شکاریوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔پرندوں میں شاہین جو شکار کے لیے سدھائے جاتے ہیں،شکرا،گدھ،الو،غراب(کوے سے بڑا کالاپرندہ)،فلامنگو(لمبی گردن اور جھلی دارپاؤں والاپرندہ)،سفید بگلا،بطخیں ،ریتلاتیتر بٹیرے اور کہیں کہیںسبزے والے علاقوں میں بلبلیں بھی پائی جاتی ہیں۔قدر ت نے سعودی صحرا کے پیٹ میں بہت ہی زہریلے سانپ اور چھپکلیوںکی بھی کئی نسلیں پال رکھی ہیں۔پالتو جانوروں میں اونٹ جو کسی زمانے میں سفرکا عمدہ ترین ذریعہ تھا،بھیڑ بکریاں اورکہیں کہیں گدھے بھی نظرآتے ہیں۔
سعودی عرب کی ستر فیصد سے زائد آبادی شہروں میں ہی رہتی ہے،بقیہ تیس فیصد آبادی صحرائی دیہاتوں میں حکومت کی طرف سے بنے زرعی فارموں میں رہائش پزیر ہے۔کل زمین کا بمشکل ایک سے دو فیصد ہی زراعت کے لیے استعمال ہوتاہے،جبکہ یہاں زراعت سے مراد درختوں کی پرورش بھی مراد ہے۔شہر چند گنے چنے ہی ہیں جو اپنی جداگانہ پہچان رکھتے ہیں باقی پورے ملک میں دو شہروں کے درمیان پہروں کے فاصلوں تک کسی آبادی کا کوئی نام و نشان تک نہیں ملتا،مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ مذہبی سرگرمیوں کا مرکزہیں،ریاض دارالحکومت اورجدہ کاروباری اور بیرونی دنیاؤں سے تعلقات کا مرکزہے۔عربی یہاں کی بولی جانے والی واحدزبان ہے اور مقامی لوگ اپنی زبان کے بارے میں بہت محتاط اوربہت زیادہ حساس ہیں۔آبادی کاایک مقتدر حصہ دوسرے ملکوں سے آیاہواہے جن میں عرب اور غیرعرب سب شامل ہیں۔دنیابھر سے ایک بہت بڑی تعداد ہر سال حج و عمرہ کے لیے بھی اس مملکت کا سفر کرتی ہے۔اسلام یہاں کاحکومتی اور عوامی مذہب ہے اور یہاں کے قوانین اور عدلیہ کے فیصلوںکا مصدر بھی یہی دین ہی ہے۔
1970اور1980کے دوران دو ابتدائی پنج سالہ منصوبوںنے اس ملک کی معاشی سرگرمیوں کومہمیز لگانے کاکام کیاہے۔پٹرولیم مصنوعات کے باعث یہاں پر دولت کی دیوی بہت مہربان ہے،دنیابھر کے پچیس فیصد سے زائد خزانے اس سرزمین کے سینے میں دفن ہیں۔زراعت میں یہ ملک کافی پیچھے تھا لیکن مسلسل حکومتی توجہ کے باعث اب ملکی آمدن کا چار فیصدتک زراعت سے حاصل ہوتاہے ،گندم،انڈے اور دودھ اب مقامی طور پر ہی حاصل کرلیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کم و بیش ستر فیصدتک خوراک کے مستعملات باہر کے ملکوں سے درآمد کیے جاتے ہیں۔گندم، سرغو، جو اور باجراکی ایک عرصے سے یہاں پر کاشت کاری کی جارہی ہے۔تربوز،ٹماٹر،کھجور،انگور،پیاز اور پیٹھایہاں پر پیدا ہونے والے پھل ہیں۔اب گزشتہ کچھ عرصے سے مصنوعات پر بھی خاصی توجہ دی جارہی ہے اور بہت سے بڑے بڑے کارخانے لگائے جا رہے ہیں ان کارخانوں میں اسٹیل،مختلف کیمائی مادے جو پٹرولیم سے تعلق رکھتے ہیں،کھاد،پائپ،بجلی کی تاریں جو مختلف دھاتوں سے بنائی جاتی ہیں،سیمنٹ،فرنیچر،ٹرک اور بسیںاور پلاسٹک کی بنی ہوئی چیزیں بھی شامل ہیں۔
Saudi Arabia Flag
سعودی عرب کا دعوی ہے کہ انکا نظام حکومت اسلامی شریعت کے مطابق ہے۔اسلام نے فرداور اجتماعیت اور حکومت و عوام کے جو حقوق و فرائض متعین کیے ہیں ان کو مملکت میں نافذ کیاجاتا ہے ،سول قانون کے طور پر اسلامی شریعت کے مطابق یہاں فیصلے کیے جاتے ہیں۔نظام حکومت کی بنیاد بادشاہ وقت کی ذات بابرکات ہے،قانونی ،انتظامی اور عدالتی اختیارات تمام کے تمام اس ذات میں جمع ہیں۔کابینہ کے اجلاس کی صدارت بھی بادشاہ کرتا ہے جس میں مملکت کے امور سے متعلق جملہ فیصلے کیے جاتے ہیںلیکن اعلی سطح کے فیصلے حکمران خاندان کے بزرگ ہی کرتے ہیں جن کوکثرت رائے سے منظور یا مسترد کر دیاجاتاہے۔مملکت کے حساس اداروں کی ذمہ داریاںاور بڑے بڑے محکموں کی چنیدہ نشستیں شاہی خاندان کا ہی استحقاق ہیں۔ولی عہد سلطنت کا انتخاب شاہی خاندان کے بڑوں،علمائے دین اور کابینہ کے اراکین کے درمیان طے پاتاہے اوریہ منصب حکومتی ذمہ داریوں میں نائب وزیراعظم کے برابر سمجھاجاسکتاہے اوراسی طرح ولی عہد ثانی کا تقرربھی کیاجاتاہے۔1970میں یہاں پہلی دفعہ وزارت قانون بنائی گئی جس کے تحت علماکو عدالتوں میں تعینات کیاگیاتاکہ شریعت کے مطابق مقدمات کے فیصلے کریں۔جہاں تک ٹریفک قوانین جیسے دیگر معاملات کا تعلق ہے تو ان کے حل کے لیے شاہی احکامات نافذ کیے جاتے ہیں جن کے تحت عدالتیں فیصلے کرتی ہیں جبکہ عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے بھی بادشاہ وقت کاہی دروازہ کھٹکھٹاناپڑتاہے۔تعلیم کے دروازے سب عوام کے لیے کھلے ہیں اور تعلیم حکومت کی طرف سے مفت مہیا کی جاتی ہے،ابتدائی تعلیم کے چھ درجات ہیں،ساتواں ،آٹھواں اور نواں درجہ ثانوی تعلیم کا ہے جبکہ دسویں ،گیارویں اور بارویں سال کی تعلیم اعلی ثانوی تعلیم کہلاتی ہے جس کے بعداعلی تعلیم کے مراحل شروع ہو جاتے ہیںجن کے بکثرت مواقع ماضی کے برعکس اب ملک میں ہی موجود ہیں۔