تحریر : طارق حسین بٹ شان سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلہ کے بعد لاہور بار ایسوسی ایشن کی قرار داد انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس میں سات روز کے اندر میاں محمد نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔یہ بڑی اہم پیش رفت ہے کیونکہ مطالبہ پنجاب سے اٹھا ہے جسے طاقت کا مضبوط مرکز سمجھا جاتا ہے اور پھر وکلاء برادری تحریک کا زبردست تجربہ بھی رکھتی ہے اور حکومتی سطح پر اس کے خلاف غنڈہ گردہی بھی نہیں کی جا سکتی کیونکہ دنیا خود ان سے خوف کھاتی ہے لیکن اب دیکھنا ہو گا کہ کیا وکلاء برادری اپنے بیان میں سنجیدہ ہے یا وہ ایسا حکومت کو دبائو میں لانے کی خاطر کہہ رہی ہے ؟کیا اب کی بار وکلاء برادری ایک دفعہ پھر یکجہتی کا مظاہرہ کرتے تاریخ کو دہرا پائیگی ؟ افتحار محمد چوہدری کی بحالی کیلئے تو میاں برادران نے تجو ریوں کے منہ کھول دئے تھے لیکن اب تجوریوں کے منہ کون کھولے گا ابھی واضح نہیں ہے۔کسی بھی تحریک کو شروع کرنا اور پھر کئی مہینوں تک اسے جاری رکھنا غیر معمول کام ہو تاہے جس کا حصول روپیہ خرچ کئے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔
اگر کوئی سرمایہ کار سامنے نہ آیا تو پھر اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ جنرل پرویز مشرف میاں محمد نواز شریف کے خلاف چلنے والی تحریک کی سرپرستی کرتے ہوئے سرمایہ کاری کریں جیسے میاں برادران نے جنرل مشرف کے خلاف سرمایہ کاری کی تھی ۔ لیکن کیا وکلاء براد ی جنرل پرویز مشرف کی اعانت قبول کر لے گی؟ بہت سے تضادات ہیں جھنیں ابھی دور ہونا ہے اور جب تک یہ دور نہیں ہوتے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آصف علی زرداری کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ کئی بار میاں محمد نواز شریف کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کرتے تھے لیکن عین موقعہ پر بیرونِ ملک روانہ ہو جاتے تھے ۔نہ کہیں تحریک چلتی تھی اور نہ ہی کہیں پر احتجاج ہو تا تھا در اصل ان بیانات کا واحد مقصد میاں محمد نواز شریف پر دبائو بڑھانا ہوتا تھا۔
میاں نواز شریف پہلے ہی عمران خان کی احتجاجی سیاست سے تنگ آئے ہوئے تھے لہذا وہ پی پی پی سے کسی قسم کا پنگا لینا مناسب نہیں سمجھتے تھے اور شائد یہ اسی دبائو کا اثر تھا کہ پی پی پی کے اہم رہنما ڈاکٹر عاصم حسین،شرجیل میمن اپنی ضمانتیں کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں،ایان علی بیرونِ ملک روانہ ہو چکی ہیں جبکہ علامہ حامدکاظمی کی سزا کو کالعدم قرار دے کر انھیں با عزت بری کر دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد خود کو محفوظ بنانے کے لئے پی پی پی کوئی نئی چال ضرور چلے گی۔میری ذاتی رائے ہے کہ اب کی بار بھی پی پی پی کچھ ایسا کریگی جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ وہ شور تو بہت ڈالے گی لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کریگی کیونکہ اسے خوف ہے کہ کہیں اس کی گردن نہ ناپ لی جائے۔ابھی تو شروعات ہیں جو کسی منطقی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم نہیں ہو ں گی۔ پی پی پی کا المیہ یہ بھی ہے کہ ا ب اس کے پاس وہ جیالے ہی نہیں رہے جو گولیوں کے سامنے بھی سینہ سپر ہو جاتے تھے۔پنجاب کسی بھی تحریک کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اور پنجاب میں پی پی پی ڈھونڈے سے نہیں ملتی لہذا پی پی پی میڈیا کی حد تک تو انتہائی سرگرم رہے گی لیکن عملی طور ہر کچھ نہیں کرے گی کیونکہ اسے اس بات کا ادراک ہے کہ زمینی حقائق ور اس کی سوچ اایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے کیونکہ پی پی پی عوام میں اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔،۔
پاکستان میں کر پشن کے خلاف بیانیہ بدل رہا ہے جسے دو فاضل ججز نے مہمیز دے دی ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ میان محمد نواز شریف قانونی طور پر تو بچ گئے ہیں لیکن اخلاقی طور پر بالکل ڈھیر ہو گئے ہیں ۔ ان کے دامن پر نا اہلی کے جو گندے جو نشانات لگے ہوئے ہیں وہ اتنے واضح ہیں کہ وہ سفید لباس پر انتہائی بدے نظر آتے ہیں۔میاں محمد نواز شریف مٹھائیاں بانٹنے کے باوجود اخلاقی طور پر انتہائی کمزور وکٹ پر کھیل رہے ہیں۔ان کے مشیر انھیں مضبوطی سے ڈٹ جانے کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن کیا میاں محمد نواز شریف اپنے مشیروں کی رائے کے مطابق ڈٹ جائیں گے یا مستعفی ہونے کا فیصلہ کریں گے ؟اگر ہم میاں برادران کی سیاسی ہسٹری دیکھیں تو اس طرح کے استعفے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ابھی تو جنگ میڈیا پر جاری ہے جس میں مسلم لیگ (ن) ترکی بہ ترکی جواب دے رہی ہے لیکن اگر بات عوامی عدالت میں چلی گئی اور وہاں سے کسی تحریک نے جنم لے لیا تو پھر صورتِ حال بدل جائیگی ۔ جنرل ضیا الحق جیسے غاصب کی گود میں پلنے والے میاں محمد نواز شریف سے جمہوری روح پر عمل پیرا ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں لیکن اس کے با وجود بھی اس بات کی امید تو کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی وقت مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔دبائو بڑھ جائے تو حسنی مبارک جیسا ڈکتیٹر بھی مستعفی ہو جاتا ہے لہذا اب عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ عوامی دبائو کو کیسے بڑھاتے ہیں۔
پاکستان مین کرپشن کے خلاف جنگ کا آغاز پی ٹی آئی نے کیا تھا اور اس کے لئے اس نے ایک طویل جدو جہد کی ہے۔اس کے ١٢٦ دنوں کے دھرنوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔سیاست دھیرے دھیرے اپنا مقام بنانے کی جنگ ہو تی ہے اور عمران خان نے انتہائی ضبط و تحمل سے اس جنگ میں اپنے حواس کو قائم رکھا ۔اس کا مذا ق بھی اڑایا گیا، اس کی تضحیک بھی کی گئی،اس کی نیک نیتی پر شک بھی کیا گیا اور اس کی جدو جہد کو بے ثمر بھی کہا گیا لیکن آج دیکھئے کہ عمران خا ن کہاں کھڑا ہے؟میاں محمد نواز شریف کو عدالت کے کٹہرے میں لے جانا کیا معمولی کارنامہ ہے ؟ ماڈل تائون کے ١٤ شہیدوں پر تو عدالت ٹس سے مس نہ ہوئی لیکن کیا وجہ ہے کہ عمران خان نے بغیر لاشیں اٹھائے میاں محمد نواز شریف کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر لیاہے ؟ ڈاکٹر علامہ محمد طاہرالقادری نے تو انا لللہ وہ انا علیہ راجعون بھی پڑھ دیا تھا لیکن اب دیکھنا ہو گا کہ انھوں نے انا لللہہ و انا علیہ راجعوں کس کیلئے پڑھا تھا۔منزل بالکل سامنے ہے بس ایک دھکے کی ضروت ہے اور عمران خان نے اس دھکے کیلئے ٢٨ اپریل کو اسلام آباد میں جلسے کا اعلان کرکے کرپشن کے تا بوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ وہ لوگ جو عمران خان کو سپریم کورٹ نہ جانے کا مشورہ دیتے تھے آج اسی کی اٹھائی گئی حکمتِ عملی سے میاں محمد نواز شریف کے استعفی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ چوہدری اعتزاز حسن جیسے لائق فائق بیرسٹر کرپشن کے خلاف عطا کردہ تاریخی موقعہ ضائع کر چکے ہیں۔ وہ دوسروں پر اعتراضات کرنے اور انھیں کم عقل ثابت کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے رہے۔
اعتزا احسن اپنی جماعت کی قیادت کی اگر مگر میں ایسے الجھے کہ اپنا منصب بھول گئے جبکہ وقت کا منہ زور گھوڑا سر پٹ دوڑتا چلا گیا۔اس سر پٹ گھوڑے کو قابو کرنا اعتزاز احسن کے بس کی بات نہیں تھی کیونکہ اس کے لئے جس جذبہ کی ضروت تھی وہ اس سے تہی دامن تھے۔اس سرپٹ گھوڑے کو عمران خان جیسا جری اور نیک نیت انسان ہی قابو کر سکتا تھا اور اس نے ایسا کر کے دکھا دیا ۔ پاکستانی سیاست کی سب سے بڑی انہونی،پاکستان کے سب سے مضبوط حکمرانوں کو کمرہِ عدالت تک لے آنا اور عدالت سے اس بات کا پروانہ حاصل کر لینا کہ میاں محمد نواز شریف صادق اور امین نہیں ہیں۔کیا یہ کم اہم واقعہ ہے جسے عمران خان نے اپنے موقف پر ڈٹ جانے سے حاصل کیا ہے؟ ۔یہی وہ لمحہ ہے جب عمران خان ایک نئے قومی لیڈر کی شکل میں سامنے ابھرے ہیں۔مجھے علم ہے کہ چوہدری اعتزاز احسن خود بھی عمران خان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں ،ان کی جرات اور بسالتوں کے مداح ہیں لیکن ساتھ ہی یہ کہنے سے بھی نہیں ہچکچاتے کہ وہ بہادر تو ہے لیکن ہارے ہوئے لشکر میں ہے۔میرا سوال ہے کہ کیا عمران خان اس وقت ہارے ہوئے لشکر میں ہے؟کہتے ہیں سچائی اپنی گواہ خود ہوتی ہے بالکل ویسے ہی جیسے سور ج کی روشنی خود اپنے ہونے کی گواہ ہو تی ہے اور اس کے لئے وہ کسی خارجی سہارے اور ثبوت کی محتاج نہیں ہوتی ۔ سورج کی موجودگی میں روشنی کا ابطال نہیں کیا جا سکتا ؟اسے تسلیم ہی کرنا پڑتا ہے لیکن جو ایسا نہ کرے اسے اندھا ہی سمجھا جاتا ہے کیونکہ روشنی کا انکار بصارت سے محروم شخص ہی کیا کرتا ہے۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال