ایک دفعہ کسی رسہ گیر کا چور ایک زیمیندار کی بھینس چوری کر لایا۔زمیندار نے کھوجی بلایا اور اہلِ دیہہ کو ساتھ لے کر بھینس کا کُھرا نکالنا شروع کر دیا آخر کُھرا نکالتے نکالتے رسہ گیر کے ڈیرے پر پہنچ گئے۔اُس رسہ گیر کو جب پتا چلا کہ اصل مالک آن پہنچے ہیں ،ایک تو چوری کا پر چہ ہو گا اور اوپر سے میری عزت کا جنازہ بھی نکل جائے گا۔لہذااُس نے فوراََ بڑی حکمتِ عملی سے کام لیا متاثرین(victoms) کو گلے لگا لیا اور اُن کی آمد پر سَت بسم اللہ جی کہہ کر بٹھانے کے لیے رنگین چار پائیاں بچھوا دیں ۔اُن کی خوب خاطر تواضع کی اور مخاطب ہوا کہ میں نے یہ سمجھا تھا کہ شائد میری غیر موجودگی میں اِس بھینس کو میرا منشی خرید کر لایا ہے میں پارٹی باز ہوں شائد میرے کسی مخالف کی چال ہے
میں آپکے ساتھ ہوں ،پولیس اسٹیشن چلتے ہیں بذریعہ پولیس اصل چہرے کو بے نقاب کرواتے ہیں۔ آمدہ لوگوں نے جب اُس رسہ گیر کی باتیں سُنی تو بڑے حیران ہوے ، سر جوڑ کر بیٹھ گئے آخر فیصلہ کیا کہ بھینس اِسی کے پاس رہے گی تا کہ کسی کو بھی پتا نہ چلے کہ اِس شریف ڈیرے دار کے پاس بھینس چوری کی ہے۔2013 والے الیکشن میں دھاندلی ہوی یا نہ ہوی لیکن ہر خاص و عام کی زبان پر یہی الفاظ تھے کہ منظم طریقے سے دھاندلی کی گئی ہے چونکہ میاں نواز شریف صاحب بینیفشری تھے اس لیے سیاسی پارٹیوں کا رُخ میاں صاحب کی حکومت کی طرف ہو گیا۔ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ جب تمام پارٹیوں کی مشاورت سے کئیر ٹیکر حکومت بنائی گئی جس نے الیکشن کرواے نہ جی ابراہیم صاحب کو کوئی بینیفِٹ ملا ،نہ چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہوئی اور نہ آرمی چیف کیانی صاحب کی ملازمت میں ۔
اِن لوگوں کو پھر دھاندلی کروانے اور اپنے اوپر الزامات کی چادر اوڑھنے کا کیا فائدہ تھا؟دوسرا سوال جو عام لوگوں کے ذہنوں میں گردش کیے ہوے ہے وہ بھی بجا ہے کہ عمران خان نے جب چار حلقے کھولنے کا تقاضا کیا تو میاں صاحب اگر دھاندلی کا حصہ نہیں تھے تو کیوں چار حلقے کھولنے کے لیے ہچکتاتے رہے اور کیوں اتنی طویل جنگ مول لے لی ؟حالانکہ سیاسی بصیرت کا تقاضا تو یہ تھا کہ تمام پارٹیوں کو کہتے کہ میرے ساتھ کوآپریٹ کرو چار حلقے تو کیاسارے کھلوا لیتے ہیںاگر دھاندلی ثابت ہوتی ہے تو جو عناصر اس میں ملوث اور قصور وار ہیں اُن کو اکٹھے مل کر سزا دلواتے ہیں تا کہ آئیندہ کوئی دھاندلی کرنے یا کروانے کی جرات نہ کر سکے
اِس طِرح عوام اور سیاسی پارٹیوں کی میاں صاحب کو فیور مل جاتی او سب میاں صاحب کی اِس حکمتِ عملی کو میاں صاحب کا بڑا پن کہتے ۔لیکن ہوا کیا کہ میاں صاحب اپنے ہی مفاد پرست سیاسی ٹولے کے ہتھے چڑھ گئے اور بلیک میل ہونے لگے ۔ماڈل ٹاون کا واقعہ رو نما ہوا تو وزیرِ اعلی صاحب کو فوراََ اخلاقی طور پر مستعفی ہو کر شفاف تفتیش کروانی چاہیے تھی اگر قادری صاحب کو پنڈی ایر پورٹ پر اُترنے دیا بھی جاتا تو کونسا پہاڑ گر پڑنا تھا ۔بڑا حکمران تو وہ ہوتا ہے جس کا دل بڑا، وسیع ظرف ،قوتِ برداشت حالات کی نبض پر مضبوط گرفت اور تمام فیصلے اپنی سیاسی عقل و دانش و بصیرت سے کرے حالات کو اِس حد تک نہ آنے دے جہاں پہنچ چکے ہیں۔جہاں تک اپو زیشن کا تعلق ہے پتہ نہیں اُنہوں نے وزیر اعظم صاحب سے کون سا حساب چکوانا ہے ۔پہلے کھری کھری سنا بھی دیتے ہیں،
دھاندلی کا میڈیا پر رونا بھی روتے ہیں ، حکومتی وزراء پر کرپشن کا الزام بھی لگاتے اور وزیر اعظم کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کھڑا کر کے ہاتھ باندھ کر معافی مانگنے پر مجبور بھی کر لیتے ہیں۔اُدھر امیرِاسلامی جماعت سراج الحق صاحب رائے ونڈ میں وزیر اعظم اور اِنکے سیاسی رفقا کی ہاں میں ہاں ملاتے بھی نظر آتے ہیں اور جب راے ونڈ کی پُر کشش فضا سے باہر نکلتے ہیں تو انکے طرزِ حکومت اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کی دل کھول کر مخالفت کر نے لگتے ہیں اور عمران خان اور قادری صاحب کے موقف پر ڈٹ بھی جاتے ہیں ۔ایم۔کیو۔ایم والے بھی کبھی استعفوں کے چکر میں نوازشریف کو پریشان کرنے لگتے ہیں تو کبھی عمران خان کے منشور کو اپنا 1992والا منشور کہ کر عوام سے پذیرائی لینے کی کوشش کر تے نظر آتے ہیں ۔اپوزیشن کو پتہ ہے کہ یہ موقعِ غنیمت ہے
بیل کنویں میں گرا ہوا ہے جس جس کا بس چلے چھُری پھیر لو۔ لیکن بیل کو پتا ہوناچاہئے تھاکہ وہ کیوں،کیسے اور کن کی وجہ سے اِن گھمبیر حالات کی دہلیز پر پہنچا ۔جب عوام ایم۔پی۔ایز اور ایم۔این ۔ایز کی طرزِ زندگی کو دیکھتے ہیں تو انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں چند سال قبل ٹوٹی پھوٹی سائیکلوں پر سواری کرنے والوں عوام کے یہ خادم اب بڑی بڑی چمکدار گاڑیوں ،اربوں کھربوں کی جائیدادیں ،ملیںاور بزنس کے مالک بن گئے ہیں لیکن بد بختی ہے اِن حکمرانوں کی جنہوں نے آج تک اِنکی طرف توجہ نہیں دی اور نہ انکا احتساب کیا ہے
پوری انتظامیہ اِنکے مرہونِ منت ہے جس کو جی چاہا ٹرانسفر کروا دیا اور جس کو جی چاہا اپنے مفاد والی پوسٹ پر بٹھا دیا انکے اپنے اپنے علاقوں میں اثر و رسوخ یہ ہیں کہ اگر کوئی جماعت انکو ٹکٹ نہ دے تو 500 ووٹ بھی نہیں لے سکیں گے۔یہ غریب عوام ،سفید پوش اور پڑھا لکھا طبقہ پہلے ہی سے سڑا بیٹھا تھا اب جب قادری صاحب اور خان صاحب نے اپنے اپنے کنٹینرز پر کھڑے ہو کر عوام کو آئینِ پاکستان کی الف۔ب پڑھائی اور ایک لنگڑی لُولی جمہوریت کے چہرے سے گھو نگٹ اُٹھایا تو عوام کی ساری ہمدر دیاں اپنے دامن میں سمیٹ لیں ۔کپتان صاحب تو حکمرانوں کی کرپشن کے پول کھولتے جا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ثبوت عوام کی عدالت میں پیش کرتے رہتے ہیں عوام کو تو اب حبیب جالب کے ان اشعار کی گونج سنائی دینے لگی ہے
کچھ لوگ ہیں عالی شان بہت اور کچھ کا مقصد روٹی ہے یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا اے چاند یہاں نہ نکلا کر
Chaudhry Ghulam Sarwar
دو تین دن پہلے گورنر پنجاب چوہدری غلام سرور نے جس انداز میں ایک انٹرویو میں اپنی بے بسی ،حکومت کی کرپشن میں ناکامی اور پندرہ ماہ سے اپنے کربِ مسلسل کا ذکر کیا ہے وہ حکومت کے منہ پر ایک طمانچہ سے کم نہیں ۔ اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ کپتان نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر ایک پروفیسر کا کام کیا ہے عوام کے آئین میں بنیادی حقوق کیا ہیں،حکومتیں انکی حق تلفی کس کس طرح کرتی رہی ہیںاور دوسرا یہ کہ آئین کس طرح کے شفاف الیکشن کا تقاضا کرتا ہے،حکومت کی کرپشن کی داستانیں قومی خزانے کا بے جا اور بے دریغ خرچ عوام کی پسماندگی کی وجوہات،آئین و قانون کی کمزور گرفت کی وجوہات ،ملک میں عدمِ تحفظ کی فضا ،بڑھتی ہوئی بے روز گاری اور تمام برائیوں کے حل کی ایسی تصویر کشی کی ہے اور ایسا شعور عوام کو دیا ہے
ذوالفقار علی بھٹو کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔اس شعور کے ردِعمل میں مسافروں کو جب پتہ چلا ک وی۔آئی۔پیز کے انتظار میں انکی فلائٹ کو اڑھائی گھنٹے لیٹ کیا گیا ہے تو انہوں نے رمیش جی اور رحمان ملک کو جہاز سے باہر پھینک کر جہاز اڑانے کے لیے عملے کو مجبور کر دیا۔اسی طرح کا واقعہ سکھر میں بھی رونما ہوا جب پولیس والوں نے وزیر اعلی سندھ کے لیے سڑک خالی کرانے کی غرض سے ایک ریڑھی بان پر تشدد کیا عوام نے وزیر اعلیٰ کو اس سڑک سے گزرنے نہ دیا اور بیچارے وزیر اعلی صاحب سر جھکائے متبادل راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوے ۔اب تو ہر گلی کوچہ اور فٹ پاتھ پر لوگ اپنے بنیادی حقوق کا قصہ چھیڑے بیٹھے نظر آتے ہیں اور گھر گھر ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے عمران جو کہتا ہے وہ ٹھیک ہی تو ہے ۔پروفیسر کے لیکچر کوبیالیس دن لگاتارہو چکے ہیں ورلڈ ریکارڈ بھی سمیٹ چکا ہے اور شائد کتنا عرصہ جاری رہے
کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔یہ عوام جو ظلم و بر بریت ، بھوک و افلاس ،نا انصافی اور مہنگائی کی چکی میں پِس رہے ہیں اور جو سفید پوش طبقہ اپنے گھروں میں مقید ہو چکا ہے اُسے تو میٹرو، موٹر ویز نہیں چاہیں ۔پاکستان میں پچاسی فیصد لوگوں نے اِن سڑ کوں کا لطف تک نہیں اُٹھایا ،پارکوں میں جانے کے لیے اِن کے پاس پیسے تک نہیں ۔انہیں انکا کیا فائدہ۔ انہیںتو چاہئیں اپنے بنیا دی حقوق ر وٹی ،کپڑا ،مکان،صحت،تعلیم اور ایک ایسا منصفانہ نظام جس میں یہ عزت و آبرو ،محفوظ اور سکھ چین کی زندگی بسر کر سکیں ۔اپنے اِن بنیادی حقوق کی آس لگائے اب کپتان کی طرف تک رہے ہیں اگر حکمرانوں نے آج اپنی آنکھوں سے تکبر کی عینکیں نہ اُتاریں تو وقت انکے ہاتھوں سے نکل جائے گا اور کپتان عوام کے دلوں پر راج کرنے کے ساتھ ساتھ بازی لے جائے گا