جنتا پریوار وجود کو برقرار رکھنے کی سعی و جہد

Lok Sabha Election

Lok Sabha Election

تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی
سفر رکشہ سے کیا جائے یا بس، کار اور ریل سے، دوران سفر بے شمار نظارے ہماری آنکھوں سے گزرتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم ان نظاروں کو سرسری انداز سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں، کبھی وہ ہمیں متاثر کرتے ہیں، کبھی ہماری فکر و عمل کو جھنجوڑتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم بالکل ہی اُنہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔بیشتر افراد کے ساتھ یہ نظر انداز کر دینے کا رویہ ہی عموماً وقوع پذیر ہوتا ہے۔پھر جس طرح دوران سفر بے شمار نظارے ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں اور کوئی نہ کوئی رد ّ عمل ہم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ٹھیک اسی طرز پر زندگی میں پیش آنے والے واقعات و مشاہدات بھی شعور و لاشعوار میں فکر و عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ دوران سفر دیکھے جانے والے نظاروں کو جس طرح ہم نظر انداز کرنے کے عادی بن چکے ہوتے ہیں،کچھ اسی طرح زندگی کے مختلف مراحل میں پیش آنے والے واقعات ومشاہدات اورتاریخی حوالہ جات کے مطالعہ کے باوجود ہمارے عملی رویے انجماد کا شکار ہوتے ہیں۔

زندگی کے آخری مراحل میں عموماً ہم اندرون قلب ایک کسک میں ہم رہتے ہیں ،کہ کاش اس دور میں جبکہ ہمیں قوت و صلاحیت حاصل ہوئی تھی اور ارادوں میں بھی پختگی تھی،کچھ کر گزرتے!لیکن یہ دور تو وہ دورہوتا ہے جبکہ قوت و صلاحیت بہت حد تک ماند پڑ جاتی ہیںاور تجربات وخواہشات کے علاوہ سرمایہ حیات کچھ بچتا نہیں ہے۔لہذا ایک عقل مند شخص وہی کہلائے گا جو قبل از وقت اپنی خواہشات کو مثبت رخ دے،اپنی صلاحیتوں کو پہنچانے اور ارتقاء بخشے،اپنے فکر و نظر کی تطہیر کرے،زندگی کے نشیب و فراز میں مختلف واقعات و مشاہدات پر غور و فکر کا رویہ اختیارکرے اور طے شدہ وقت میں انفرادی و اجتماعی سعی و جہد کا پروگرام ترتیب دے۔

 Election

Election

ابتدائی گفتگو کے بعد گزشتہ دنوں ملک عزیز ہندوستان میں رونما ہونے والے لوک سبھا الیکشن اور اس کے نتائج پر ہم نظر ڈالتے ہیں۔اخبار کا قاری خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ چند ماہ پہلے لوک سبھا الیکشن اور اس کے نتائج سے ملک میں اگر کوئی سب سے زیادہ فکر مند تھا تو وہ ملک کی اقلیتیں ہی تھیں۔اور یہ حقیقت بھی خوب عیاں ہو چکی ہے کہ ملک کی اقلیتوں کی فکر مندی لایعنی نہیں تھی۔کیونکہ جس طرح ایک سال سے بھی کم کے عرصہ میں ملک عزیز ہند میں اقلیتوں کے ساتھ معاملہ کیا گیا ہے وہ کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔اُن کے خلاف کھلے عام منفی بیان بازیاں کی گئیں اورجاری ہیں۔

ساتھ ہی مختلف عنوانات کے تحت جن میں کبھی گھرواپسی کے نعرے سامنے آتے ہیں تو کبھی اقلیتوں کے خلاف ہندو اکثریت کو متحد کرنے کے بیانات،کبھی ملک کے تمام باشندگان کو ہندو قرار دینے کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے تو کبھی قانون کے دائرہ میں تبدیلی مذہب کے خلاف محاذ کھولنے کی بات کی جاتی ہے،کبھی نس بندی کروائے جانے کے دھمکی آمیز بیان سامنے آتے ہیں تو کبھی حق ووٹ سے محروم کرنے کی بات کہی جاتی ہے۔اور ان تمام بیانات کے ساتھ مخصوص اقلیتی طبقہ کے مذہبی مقامات کی بے حرمتی کے واقعات ۔یہ وہ باتیں ہیں جن کا اندازہ کسی حد تک ملک میں تقریباً 60%فیصد ووٹنگ کا31%حاصل کرنے والوں کے برسراقتدار میں آتے وقت ہی ہوگیا تھا،اس کے باوجود کچھ معصوم و ناداں ایسے بھی تھے جنہوں نے کل آبادی کے 15 سے18 فیصد حاصل کرنے والوں سے بہت سی مثبت توقعات وابستہ کی ہوئیں تھیں۔اور شاید وہ توقعات اس بنا پر تھیں کہ جب کوئی ملک کا وزیر اعظم،وزیر اعلیٰ یا اور کوئی اوردستوری ذمہ دار منتخب ہوتا ہے ،تو وہ نہ صرف اپنی پارٹی اور وابستگان کا بلکہ کل ملک کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کل ملک کے شہریوں کے حق میں نہ صرف پالیسی و پروگرام مرتب کرے بلکہ پالیسی و پروگرام کے عمل درآمد میں رکاوٹ بننے والے افراد و گروہوں پر بھی شکنجہ کسے۔اخبارات و رسائل اور الیکٹرانک میڈیا کو دیکھنے و سننے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بظاہر اس سلسلے میں کچھ کوششیں بھی کی گئی ہیں۔برخلاف اس کے عمل و ردّ عمل سے کوئی ایسی شہادت پیش نہیں کی گئی ،جس سے دیکھی اور سننی والی باتوں پر یقین کیا جا سکے۔ گزشتہ دنوں جب ملک میں لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے کمزور طبقوں نیز اقلیتوں کو فکرمندی کے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔

India

India

اس وقت ایک مضمون بعنوان”ہندوستان کا بدلتا سیاسی منظرنامہ”کے آخری پیراگراف میں راقم نے لکھا تھا کہ:اس موقع پر مسلمان ہند جو خصوصاً16مئی کے بعد ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہیںانہیں ہم بتا دینا چاہتے ہیںکہ آپ کا یہ طرز عمل آپ کی حیثیت کے لحاظ سے مناسب نہیں ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی حیثیت سے آج خود ہی واقف نہ رہے ہوں۔لیکن جس طرح انتخابی نتائج کے بعد نہ صرف ناکام زدہ افراد اور پارٹیوں نے ناکامی کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑنے کی کوشش کی اور راست و بلاواسطہ انہیں مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے،وہ مناسب نہیں ہے۔وہیں خود مسلمان بھی مسلم تنظیموں کے قائدین، علما کرام اور قائدین ملت کے فیصلوں کو برا بھلا کہنے سے نہیں چوک رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ناکامی آپ کی ہوئی ہے یا اُن سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کی جن کی روٹی روزی ہی آپ کے توسل سے پہنچتی ہے؟گزشتہ دنوں اتر پردیش میں جب آپ نے بھر پور اکثریت کے ساتھ ایک پارٹی کو کامیاب کیاتھا تب آپ کو کیا فائدہ حاصل ہوا ؟واقعہ یہ ہے کہ ریاست میں کامیابی کے سال دوسال ہی گزرے تھے کہ تقریباًسو سے زائد چھوٹے بڑے فسادات کی لپیٹ میں آپ آگئے۔اور اب جب کہ وہ (لوک سبھا الیکشن میں )ہار چکے ہیں توکیا ایسا بڑانقصان ہونے والا ہے جس سے آج تک آپ دوچار نہیں ہوئے؟درحقیقت تقسیم تو وہ ہوئے ہیں اور انہیں ، ان ہی کے اعمال بد نے رسوا بھی کیا ہے۔اس سے آگے بڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف وہ اپنی غلطیوں کا اندازہ کر چکے ہیں بلکہ طرز عمل میں تبدیلی بھی لایا چاہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج بہار کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے۔ توقع ہے اُن کو اپنی غلطیوں کے سدھارنے کے نتیجہ میں 2014کے اختتام تک ہونے والے بہار اسمبلی الیکشن میں ،آپ کے اپنے موقف پر برقرار رہنے کے باوجود ،نتائج میں بڑی تبدیلی سامنے آئے گی۔یاد رکھیں ملک کا سیاسی منظر نامہ نہ صرف آج بلکہ گزشتہ 70سالوں میں لگاتار تبدیلی ہوتا رہا ہے۔لیکن کامیابی سے ہمکنار وہی لوگ ہوئے ہیں جو ناکامیوں کے بعد بھی اپنے موقف پر جمے رہے،حوصلے بلندرکھے،لائحہ عمل میں تبدیلی کی اورکامیابیوں کے سراغ تلاش کرتے رہے۔
اس ایک اقتباس کی روشنی میں موجودہ حالات کا اگر جائزہ لیا جائے،تو یہ بات خوب اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ جس طرح فی الوقت ملک کی چھ سیاسی پارٹیاںجنتا دل (یو)، سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، انڈین نیشنل لوک دل، جنتا دل (سیکولر) اورسماج وادی جنتا پارٹی ،سب مل کر ایک نئی پارٹی کے قیام کا اعلان کرتی نظر آرہی ہیں،دراصل یہ اُسی ناکامی کا ادراک ہے ،جس کی وجہ ایک سال پہلے آپ نہیں بلکہ وہ خودہی تھے۔ایک زمانے میں یہ تمام جماعتیں اور اس کے سربراہان “جنتا دل” کا حصہ رہے ہیں۔جو سنہ 1988 میں وجود میں آیا تھا۔

اسی مناسبت سے اسے ‘جنتا پریوار’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 1988 میںجنتا دل کانگریس کے خلاف وجود میں آیا تھا اور تب اسے بی جے پی کا ساتھ ملا تھا۔ لیکن آج اسی جنتا پریوارکے اتحاد کی تمام کوششیں بی جے پی کے خلاف ہیں اور کانگریس کا ساتھ ملتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جہاں ہندوستانی سیاست کا ایک دور مکمل ہورہا ہے وہیں ایک نئے دور کا آغاز بھی ہواچاہتاہے۔وجود کو برقرار رکھنے کی سعی و جہد میں “جنتا پریوار “بہت حد تک تشکیل پاچکا ہے۔ اس کے باوجود دیکھنا یہ ہے کہ اس نئے دور میں آپ اپنا تشخص اوروجودبرقراررکھنے کے کیا طریقے اختیار کرتے ہیں؟تشخص و وجود کی عملی حصہ داری ہی آپ کی مذہبی،سیاسی،معاشی،معاشرتی اور خاندانی حیثیتوںکو برقرار رکھنے کا ذریعہ بنے گی۔اوراس کی بنیادی کلید اسلام کوبطورایک مکمل نظام حیات پیش کرنے میں ہے۔یہ پیش کرنے کا عمل جہاں قولی ہووہیں عملی بھی ۔ساتھ ہی طریقہ کار وہ اختیار کیا جائے جو اقدار پر مبنی ہو۔جہاں رنگ،نسل،ذات اور معاشی پیمانوں سے اوپر اٹھ کر انسانی بنیادوں پر بنی آدم کی خیر خواہی عملی ریوں سے ثابت کر دی جائے۔

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com