تحریر : ریاض جاذب میری نظر میں انسان کے انسان ہونے کی ایک بڑی پہچان اور لازمی شرط اس کی زبان ہے۔ زبان کے بغیر انسان کو انسان نہیں کہا جا سکتا، جانوروں اور انسانوں فرق زبان ہی ہے۔ یہ وہ سیڑھی ہے جس کو پار کر کیا انسان انسانیت حاصل کرتا ہے۔ تصور کرنے کی طاقت اور اس کے ساتھ ساتھ سوال پوچھنے کی طاقت کہ میں کون ہوں یا کہ میں کیا ہوں یا میں ایسا کیوں ہوں، یہی انسانیت کی پہچان ہے۔ جب مخلوق کو زبان ملتی ہے تو اس کے بعد انسان اپنی اس مخصوص پہچان اور روپہ سے باقی مخلوق سے مختلف ہو جاتا ہے۔زبان کے بغیر معاشرے میں شناخت نہیں ہو سکتی چنانچہ سب سے پہلے زبان اپنے آپ کو اور دوسروں کو پہچاننے کا ذریعہ ہے۔ اگر کسی معاشرے یا اس کی اکائی کو اس کی زبان سے کاٹ دیا جائے تو اس کی سالمیت کو خطرہ قرار دے سکتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی زبان اور ثقافت اس کی ہزاروں اور لاکھوں سالہ زندگی کا اثاثہ ہوتا ہے۔ جو کسی بھی قوم کی پہچان اور اس کی زندگی کی احساس ہوتی ہے۔
اس سے کیسے دستبردار ہوا جا سکتا ہے؟ اب ہم آتے ہیں مضمون کے موضوع کہ زبان کی بنیاد پر پہچان پر بات کرتے ہیں۔ سرائیکی بولنے والوں کو جو کہ نہ صرف سرائیکی بولتے ہیں ان کو اس زبان سے لگاؤ ہے۔ کیونکہ یہ اس کے پہچانے جانے کی پہلی شرط ہے اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو سرائیکی بولتا ہے یا اس کو اس سے لگاؤ ہے وہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتا ۔ سماج میں رہتے ہوئے وہ خود کوسرائیکی زبان والا یا یہ کہ سرائیکی کا لقب اپنے نام کے ساتھ جوڑے گا جس سماج میں کثرت سے اگر سرائیکی زبان بولنے والے بستے ہیں تو وہ سماج یعنی معاشرہ سرائیکی ہی کہلائے گا ۔اس معاشرے کی ثقافت بھی سرائیکی ہی کہلائے گی۔ کیونکہ زبان ایک جامع ثقافت کی پہچان کا ذریعہ ہوتی ہے سماجی رویے کی بنیاد بھی زبان ہے۔ زبان کے بغیر برتاؤ نہیں ہو سکتا اور جس زبان کا طرز عمل سے تعلق نہیں ہے، وہ زبان معاشرے سے بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ زبان ہماری طاقت ہے کبھی زبان معاشرے کی وضاحت کرتی ہے، تو کبھی سماج، زبان کی وضاحت کرتاہے. معاشرے کی ہر سرگرمی زبان کے ذریعے طے ہوتی ہے. چنانچہ زبان اور سماج کا گہرا تعلق ہے۔زبان، سماج، اور ثقافت جس گروہ کی اپنی ہو تو وہ گروہ قوم کہلانے کی حقدارہے۔ اگر خطہ میں رہنے والوں کی اکثریت کی اپنی زبان ہے ان کا اپنا ایک سماجی پہلو ہے اور اس کی بنیاد پر اپنی ثقافت ہے تو پھر وہ قوم کیوں نہیں ہے۔
Saraiki
جس طرح مذہب،علاقہ،جنس، قوم، ریاست سے پہچان کی جاتی ہے اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ زبان کی بنیاد پر بھی پہچان ہوتی ہے۔ دنیا بھرکی مختلف قوموں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے اپنی زبانوں کو اپنے سے جوڑ کررکھا ہے کیونکہ مختلف ثقافتوں اور معاشروں کی تعمیر کا سلسلہ زبان کی بنیاد پر ہوا ہے۔ ثقافت کی شناخت زبان کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ پنجابی ثقافت ، بلوچی ثقافت ، سندھی ثقافت ، پختون ثقافت ، کشمیری ثفافت وغیرہ یہ نام قوم اور زبان کو ثابت کرتے ہیں۔زبان کی بنیاد پر الگ پہچان کا مطالبہ اگرکیاجائے گا تو سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہوگا کہ مطالبہ جہاں سے آرہا ہے آیا وہ ایک الگ زبان ، سماج اور ثقافت ہے۔
زبان کی بنیاد پر کسی کو تسلیم نہ کرنا اس طرح ہے جیسے کہ گویا اس زبان والوں پر جبروتسلط قائم کیا جارہاہے ان کے بارے میں جھوٹے پروپیگنڈے کئے جانا اور ان کو کمتر ثابت کرنا اور ان کو حوصلہ شکنی کرنے کے لئے ان کے بارے میں غلط رائے قائم کرنا انہیں حقوق کا نہ ملنا یا یہ کہ پسماندہ رکھنا یہ سب جبرو تسلط کی نشانی ہے۔
مضمون کیونکہ زبان کی بنیاد پر پہچان کے گرد گھومتا ہے اس لیے ہم اس سے باہر نہیں جاتے وگرنہ مذکورہ بالا پیرا کے تحت یہ ثابت کرنا کوئی مشکل نہیں کہ سرائیکی علاقہ جسے عرف عام میں سرائیکی وسیب بھی کہا جاتا ہے اورسیاسی مجبور لوگ اس خطہ کو جنوبی پنجاب بھی کہتے ہیں کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا گیا ہے اسی سلوک جس کو ہم رویے بھی کہتے ہیں کی بنیاد پر محرومیاں ہیں کہ بڑھتی جارہی ہیں فاضلے ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں۔ ان محرمیوں کا ازالہ کرکے مابین فاصلوں کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
سرائیکی وسیب کا ہر باشدہ اپنی زبان سے پیار کرتا ہے اور زبان کی بنیاد پر اس کی پہچان ہے جب وہ یہ محسوس کریں گے کہ انہیں اس الگ پہچان کی بنیاد پر تسلیم نہ کرتے ہوئے نظرانداز کیا جارہا ہے تو پھر ان کی طرف سے اظہارات بھی آئیں گے اور مطالبات بھی یہ الگ بات ہے کہ ان کے اظہارات اورمطالبات کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اس کو غیر اہم قرار دیا جارہا ہے مگر تاریخ کے اوارق کا کیا کروگے جو لکھے جا رہے ہیں۔ ابھی بہت وقت باقی ہے دیرنیہ محرومیوں کا حقیقی معنوں میں ازالہ کیا جائے۔سرائیکی وسیب میں بے روزگاری ،غربت کا معاملہ ہو یا صحت، تعلیم کی سہولیات کے فقدان کامعاملہ چارٹ میں اول نمبرپرہے ۔وسائل کی تقسیم اور خرچ کا معاملہ ہو یا ادارووں کے قیام کا معاملہ یہاں بھی سرائیکی وسیب بہت پیچھے ہے۔ پیچھے رہ جانے کی تفصیل پر ہم نہیںجاتے کون اس کا ذمہ دار ہے وغیرہ اس پر بھی کوئی تبصرہ نہیں ہے ۔ مگر دیکھنے کی جوبات ہے وہ سنجیدہ اقدامات کی وہ کب اور کون اٹھائے گا۔