تحریر: پروفیسر مظہر ایک زبان دراز شخص کا مارے بھوک سے براحال تھا۔ کئی درکھٹکٹانے کے بعد بالآخر اسے ایک گھر سے مٹھی بھر کچے چاول مل گئے لیکن مسٔلہ یہ آن پڑا ان چاولوں کو پکائے کون ؟۔کافی تگ ودَوکے بعدایک بڑھیااس کے چاول پکانے کو تیار ہو گئی۔
جب بڑھیانے چاول چولہے پر چڑھائے تواُس شخص نے بڑھیاسے پوچھاکہ اِس بڑھاپے میںاُس کاذریعہ معاش کیاہے اورگزربسر کیسے ہوتی ہے ۔بڑھیانے جواب دیاکہ اُس کاایک ہی جوان بیٹاہے جومحنت مزدوری کرکے اتناکما لاتاہے کہ زندگی آرام سے گزررہی ہے ۔اُس زبان درازنے بڑھیاسے سوال کیا ”اماں !اگرتمہارا بیٹامَرجائے توپھر تمہاراکیا بنے گا؟”۔بڑھیا غصّے میںآ کربولی ” اپنی جھولی پھیلاؤ” اُس شخص نے اپنی جھولی پھیلائی تو بڑھیانے اُبلتے چاول اُس کی جھولی میںاُنڈیل کرکہا ”اب یہاںسے دفع ہوجاؤ ”۔ گاؤںکی گلی سے گزرتے ہوئے اُبلے چاولوںکا پانی اُس زبان درازکی جھولی سے ٹپک رہاتھا ۔لوگوںنے پوچھاکہ اُس کی جھولی سے کیا ٹپک رہا ہے؟۔
اُس نے جواب دیا”زبان کارَس”۔ محترم الطاف حسین کی تقریر نے بحرسیاست میںایسا ارتعاش پیداکیاکہ ہرطرف ہلچل سی مچی ہوئی ہے ۔غیرپارلیمانی زبان اورالزام تراشی تواب ہماری سیاست کاجزوِلاینفک ،جس کے جومُنہ میںآتا ہے ،بولتا چلاجاتا ہے لیکن الطاف حسین نے توہر ”حَد” پھلانگ دی ۔فوج کا ردِعمل مناسب اوربَروقت ، ISPRکے میجرجنرل عاصم باجوہ صاحب نے اِس خطاب کو بیہودہ قراردیا ۔اُن کے ٹویٹ کے بعداب ہرکوئی” حصّہ بقدرِجثہ” ڈال رہاہے اورکچھ توجثے سے بھی زیادہ ۔بلوچستان اسمبلی کی مذمتی قرارداد پاس ہوچکی ۔سندھ اورپنجاب کی اسمبلیوںمیں بھی ایسی ہی قراردادیں لانے کاشور اورسینٹ و قومی اسمبلی میںبھی اسی کی بازگشت ۔الطاف حسین صاحب نے معافی مانگ لی اورایم کیوایم والے وضاحتیںپیش کر کرکے تھک چکے لیکن سیاست دانوںمیںخونِ گرم کی لہریںابھی تازہ دَم ۔سب سے معتدل اورمتوازن ردِعمل قائدِایوان اورقائدِحزبِ اختلاف کا ۔محترم وزیرِاعظم نے فرمایا ”معافی مانگناایک اچھااقدام ہے”اور سیدخورشیدشاہ نے کہا”جب معافی مانگ لی گئی توپھر معاملہ ختم ہوجانا چاہیے ”۔ لیکن کچھ لوگ ایم کیوایم سے گِن گِن کے بدلے لینے کے درپے ۔سوال یہ کہ اگرواقعی ایم کیوایم ایک دہشت گردجماعت ہے ، ٹارگٹ کلرزاور بھتہ خوراُس کی پناہ میںہیں ،اُس کے اپنے نو گوایریاز اورعقوبت خانے ہیں،اسے بھارت سے فنڈنگ ہوتی ہے اوراُس کے کارکن” را” سے تربیت حاصل کرتے ہیںتوپھر اِس جماعت پرپابندی چہ معنی دارد؟۔اُس کے ساتھ تو وہی سلوک ہوناچاہیے جوطالبان نامی دہشت گردوںکے ساتھ کیاجا رہاہے ۔لیکن اگریہ محض الطاف حسین کی لغو ،بیہودہ اوربے بنیاد تقریر کا ردِعمل ہے تو پھر
MQM
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے آخر گناہ گار ہوں ، کافر نہیں ہوں میں
اگر ایم کیوایم کوقومی دھارے میںلانا مقصودہے توپھر اِس کاطریقِ کاریہ تونہیں ،جو نظر آرہاہے ۔حکمرانوںکو چاہیے کہ اکابرینِ ایم کیوایم کواُن کی سیاسی حدودوقیود سے آگاہ کریں اورپھر اِس پرسختی سے عمل درآمد بھی ہو۔اُنہیںیہ سمجھاناکچھ مشکل نہیںکہ محض اُن کے قائدکی تقریروںکا ردِعمل ہے جوگاہے بگاہے اُنہیںوقفِ مصیبت کرتارہتا ہے ۔ حضرت علی کاقول ہے ”زبان ایک ایسادرندہ ہے کہ اگر تُو اسے کھلاچھوڑدے تو عین ممکن ہے کہ تجھے ہی پھاڑکھائے”۔الطاف حسین صاحب کی زبان کبھی بھی اُن کے قابومیں نہیںرہی ۔یہ آج کی بات نہیں،عشروںسے ایساہی ہوتاچلا آرہا ہے ،کبھی گھریلوسامان بیچ کراسلحہ خریدنے کاحکم ،کبھی کارکنوںکو فوجی ٹریننگ حاصل کرنے کی ہدایت ،کبھی ”چھڑی اوربِلے”پر طنزاور کبھی یہ کہ ”دیکھتے ہیںدریائے سندھ کاپانی کس کے لہوسے سرخ ہوتاہے”۔ یہ الطاف حسین صاحب کی زبان کارَس ہی ہے جوایم کیوایم کووقفِ مصیبت اورگرفتارِبلاکرتارہتاہے۔ شیخ سعدی کہتے ہیں”وہ شخص جس کی زبان کَٹی ہوئی ہو،اُس شخص سے بدرجہابہتر ہے جس کی زبان قابومیں نہ ہو”۔ لیکن حقیقت تویہی ہے کہ اعضائے جسمانی میںسے سب سے زیادہ نافرمان زبان ہی توہے اورالطاف حسین صاحب کی زبان کچھ زیادہ ہی نافرمان ۔ہم نے توانہی کالموںمیں کئی باردست بستہ استدعاکی کہ
اتنا نہ اپنی جائے سے باہر نکل کے چل دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ ، سنبھل کے چل
لیکن نقارخانے میںتُوتی کی آوازبھلاکون سنتاہے اورالطاف حسین صاحب تو ویسے بھی ”مَن موجی”قسم کے انسان ہیں ۔وہ اپنے کارکنوںسے گھنٹوں بلکہ پہروں کبھی ویڈیواور کبھی آڈیولنک پر خطاب کرتے رہتے ہیںاور خودسامعین کوبھی پتہ نہیںہوتا کہ اُنہوںنے کب ، کیاکہہ گزرناہے ۔یہ اُن کی ذہنی رَو کاشاخسانہ ہے کہ وہ کبھی تلاوت کرتے کرتے لہک لہک کرگانا ،گاناشروع کردیتے ہیں اور کبھی گاناگاتے گاتے تلاوت۔یقین ہے کہ اُن کاہرخطاب الیکٹرانک میڈیاکے لیے بھی ہمیشہ ”باعثِ آزار” ہوتاہے لیکن میڈیامجبوراور بے بس کہ اگر ”الطاف بھائی”کا براہِ راست خطاب نہ دکھایاگیا توکراچی میںرہنامشکل بلکہ انجام ولی خاںبابر جیسا۔اِس ”میڈیائی بے بسی”کا اعلاج صرف حکمرانوںکے پاس لیکن وہ بھی خاموش اور ”ٹک ٹک دیدم ،دم نہ کشیدم”کی عملی تصویر۔پیپلزپارٹی کوسب پتہ لیکن سیاسی مصلحتیںدامن گیر ،نوازلیگ بھی خوب آگاہ مگر فی الحال خاموش۔ پیمرا محض عضوِمعطل ،اگرفعال ہوتاتو میڈیاچاہے جتنابھی آزاداور بے باک ہواپنی حدودوقیود سے باہر نکل کر ایسے بیہودہ خطابات کی لائیو نشریات سے گریزہی کرتا۔
حل توبہت آسان کہ کسی بھی رہنماء کابیان براہِ راست نشرنہ کیاجائے اورآڈیو،ویڈیو خطاب پرمکمل پابندی ۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہماراپیمرامکمل طورپر فعال اورسیاسی آلائشوںسے پاک ہولیکن یہاںتو صورتِ حال یہ ہے کہ پیمرانامی ادارہ صرف تنخواہوںاور مراعات کے حصول کے لیے قائم کیاگیاہے۔ عوام کی رگوںسے کشیدکیے گئے خون پرپلنے والے اِس ادارے کی فعالیت پہلے کبھی نظر آئی ،نہ اب آنے کی توقع۔