لانز کی بہار اور اشتہارات کے انبار

لاہور (اقراء ہاشمی) میں آپکے اخبار کے توسط سے لوگوںکی توجہ ایک اہم مضمون کی طرف مبذول کرنا چاہتی ہوں۔گرمیوں کا موسم ہو اور اس پر لانز کی سیلز ہو تو خواتین کا جنون شائقینِ کرکٹ کے جنون سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔آج کل بڑے بڑے برانڈز کی لانز متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ پہلے جہاں صرف دو یا تین برانڈز کی لانز ہوا کرتی تھیں آج وہاں دو سو ہیں۔ کبھی کبھار تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی شخصیت سے نہیں بلکہ انکے کپڑوں کے برانڈز سے متاثر ہوتے ہیں۔

لوگوں کو دیگر اشتہارات کے ذریعے انکی طرف متوجہ کیا جارہا ہے خواتین میں اسکا رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔خواتین میں لانز کے لئے کافی جوش و خروش نظر آتا ہے اور جیسے اب مہنگے ترین لانز کو پہننا شوق نہیں بلکہ ضرورت بنا لیا گیا ہے۔کچھ طبقے ایسے بھی ہیں جو مہنگے برانڈز کے کپڑے نہیں خرید سکتے لیکن ظاہر ہے وقت کا تقاضہ ہے تو انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی خریدنا پڑتا ہے کیونکہ اب ہمارے معاشرے میں لوگوں کی قدر اُنکے کردار اور اخلاص سے نہیں بلکہ اُنکے لباس سے کیا جانے لگا ہے۔

آج کل ہر دو قدم پر ایک سائن بورڈ آویزاں دکھائی دیتا ہے جس میں سب سے زیاد ہ اشتہارات لانز سے متعلق ہی پائے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کل خواتین نے اسے اپنا جنون بنا لیا ہے۔ان اشتہار با ز یو ں کو تھوڑا کم کرنا چاہئیے تا کہ لوگ ضرورت کو ضرورت کی طرح استعمال کریں نا کہ اسے اپنی دیوانگی بنا لیںاور ویسے بھی اسلام میں سادگی کو پسند کیا جاتا ہے۔