تحریر: ایم آر ملک سٹیٹس کو بچانے والے عمران کے خلاف جمہوریت کے نام پر چاہے جتنی چیخ و پکار کریں عوام کے ذہن کو جنجھوڑنے والوں نے عوام کو خواب غفلت سے جگاکر ثابت کر دیا کہ جمہور دشن کون ہیں،عمران نے اُنکے چہرے پر پڑا منافقت کا نقاب اُتار پھینکا ہے اور محض 100دنوں میں 19کروڑ لوگوں کو یہ باور کرادیا ہے کہ حقیقی جمہوریت کا تصور کیا ہے ؟خیبر پختون خواہ کا مولوی اس خوف کے تسلسل میں گھرا ہوا ہے کہ اُس کے گھر میں نقب لگا کر تحریک انصاف نے میدان مار لیا بھٹو کی پارٹی پر ناجائز قابض اور پی پی نظریات کا سوداگر بمبینو سینما کے ٹکٹ بلیک میں فروخت کرنے والا”مسٹر تین پرسنٹ ” اس لیئے خائف ہے کہ بھٹو کا ورکر حقیقی قیادت کی تلاش میں تحریک انصاف کی چھتری تلے پناہ لے چکا ہے جس طرح زرداری کوبھٹو کی کھال پہنا کرجعلی بھٹو بنایا جارہا ہے اور نظریاتی ورکر اُسے اب قبول کرنے کو قطعاًتیار نہیں اسی طرح قائد اعظم محمد علی جناح کے وارث مسلم لیگ کواپنے نام کا لاحقہ لگا کر ایک صنعتکارکو قائد کی حقیقی جماعت کو یر غمال بنانے پر عوام کا خون کھول رہا ہے ان عوام دشمن جمہوریوں کے چہرے سے جمہور نے اب نقاب نوچ لینا ہے کہ دھوکے کی بنیاد پر 19کروڑ لوگوں کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔
لاڑکانہ کے جلسہ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھنے پر کئی چہروں کی ہوائیاں اُڑی ہوئی ہیں اور وہ حواس باختہ ہیں ایوب کھوڑو کے بیٹے نے زرداری سے اپنے وفا کا ثبوت یوں دیا ہے کہ عمران کے خلاف ایک قرارداد منظور کرائی موصوف کا فرمان شاہی ہے کہ عمران خان نے ریفرنڈم میں مشرف کا ساتھ دیا یہ فرمان بجا لیکن ”این آر او ” جیسے کالے اور عوام دشمن معاہدے کے تحت اپنی کرپشن کو چھپانے کیلئے ایک آمر کی دہلیز پر سجدہ ریز کون ہوا ؟بھٹو کے نام کی جتنی چاہے ملمع کاری کرکے اور خاندان ِ شریفیہ سے گٹھ جوڑ کے تحت آئندہ باری کو پکا کرنے کیلئے چاہے جتنے ہتھکنڈے استعمال کر لئے جائیں عوام اب بھٹو اور قائد اعظم کے جعلی وارثوں کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے جمہوریت کے چہرے پر خاندانی بادشاہت نے جتنے چرکے لگائے جمہوریت کا ناتواں بدن اب اس زخم زخم چہرے کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا اب جمہور ایسی جمہوریت کی لاش اُتھانا گوارا نہیں کریں گے جس کی بربادیوں کا سماں یہ ہے کہ تھر میںبھوک ،ننگ،افلاس ،غربت کا قہر معصوم جانوں پر ٹوٹ رہا ہے مائوںجہاں مائوںکے پاس دو ہی رستے بچے ہیں کہ زندہ لاش بن کردو خاندانوں کی جمہوریت کے کرب سے گزریں یا موت کو گلے لگا لیںایک ایسی جمہوریت جس میں دو خاندانوں نے اپنی دولت اور ہوس کی وحشت میں ایسے جرائم کئے جن کو سرزد کرنے میں تاریخ کے بڑے بڑے جابروں کے دل دہل گئے خاندانی بادشاہت کے شطرنج کا کھیل پسماندہ ،محروم اور برباد انسانوں کا قتل عام کر رہا ہے میڈیا کے جن دلالوں پر عمران تنقید کرتا ہے اُنہیں ”صحافیوں ”کانام دیکر حکومتی کارندے ”محب وطن صحافیوں ”پر تنقید کا ڈھول بجانے میں مصروف ہیں مگر اب عوام کا حافظہ کمزور کرنے کی ساری کاوشیں ناکام ہوں گی وہ جانتے ہیں کہ ”لفافہ صحافت ”کے نام پر 31کروڑ لیکر کس کا ضمیر بکا اور 20کروڑ کونسے ضمیر فروش اور فتویٰ فروش ”مولویوں ”نے لئے باری کا نیٹ ورک جب تک نہیں ٹوٹے گا نام نہاد جمہوریت کا ”بھوت ”یونہی منڈلاتا رہے گا مگر اس غیر یقینی کیفیت میں حکومتی ”افواہ ساز فیکٹریاں ”جتنی چاہیں افواہیں پھیلائیں حکمران اور اُن کے پارٹنر اس دلدل سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔
Democracy
یہی جمہوریت عوام کے دکھوں کا مداوا ہے جس میں غرباء کیلئے علاج ایک معاشی عذاب بن گیا ہے پنجاب میں اسی خاندانی جمہوریت کی ”گڈ گورننس”نے پہلے وہاڑی اور اب سرگودھا کے مراکز مسیحائی میں معصوم بچوں کے گلے گھونٹے سرگودھا میں مرنے والے بچوں کی شرح تھر میں ہونے والی اموات سے زیادہ ہے اسی جمہوریت کی رعونت کے تیور ہیں کہ ذلت اور استحصال کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
الیکشن مہم کے دوران جوش خطابت میں چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے دعویدارجنہوں نے اپنا نام تبدیل کرنے کی نوید سنائی کے چہروں پر کسی قسم کی شرمندگی یا جھوٹ بولنے سے ہونے والی ”ہتک”نظر نہیں آتی اعلیٰ خدمت کا اعزاز یہ ہے کہ اقلیت کے عیاش محل پھیلتے جارہے ہیں اور اکثریت روزی روٹی سے محروم ہوتی چلی جارہی ہے اسی جمہوریت کو بچانے کیلئے تن من دھن کا زور لگایا جارہا ہے جس میں خاندان کے 26افراد اقتدار کے منصب پر بیٹھ کر ہماری قسمت کے فیصلے کر رہے ہیں اسی جمہوریت کا دھونگ فریب ہے سماج کا جسم سسک اور کراہ رہا ہے اسی جمہوریت کے سائے میں ایک خونخوار گروہ جو کالے دھن سے اپنی تجوریاں بھرنے کی خاطر غریب عوام کو امریکی اور یورپی ساہوکاروں کے چنگل سے نکلنے نہیں دیتا جمہوریت کے نام پر ایک مخسوص جمہوری ٹولہ عوام کو ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے ”سلاٹر ہائوس ”میں دھکیل رہا ہے۔
اب زرخرید صحافت اور سیاست کے دلالوں کے ذریعے عوامی احساس کو گھائل اور شعور کو مسخ کرکے یہ سلسلہ طوالت نہیں چلے گا عمران خان کے گرد اُن لوگوں کا سیلاب اُمڈ آیا ہے جن کے دکھ اور غم غیظ و غضب میں بدل چکے نام نہاد جمہوریت سے غصہ اور نفرت بغاوت کی شکل اختیار کر چکا ہے اور کروڑوں انسانوں کا غیظ و غضب مشترکہ پکار بن رہا ہے جس کی گونج سے آمر حکمرانوں کے عالیشان ایوان لرزتے نہیں کھنڈر ہو جاتے ہیں یہ انقلاب ہوتا ہے یہ 30نومبر کو پھر ہونے والا ہے واقعات اور شعور کے ملاپ سے اپنی محنت کی مشترکہ طاقت کے احساس سے اور غلامی کی زنجیروں کی برداشت کے خاتمہ سے خاندانی جمہوریت اور ”سٹیٹس کو ”کا تسلط اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کیلئے اب کوئی بھٹو نہیں بچا اور مسلم لیگ کی قیادت کیلئے بانی پاکستان کا کوئی جانشین نہیں 6