اسلام آباد (جیوڈیسک) بجلی چور ملکی معیشت کا خون چوسنے والی جونک بن گئے۔ گزشتہ 5 برس میں 819 ارب روپے کی بجلی چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ پشاور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن میں 39 فیصد، سکھر میں 37 فیصد، حیدر آباد میں 27 اور کوئٹہ میں 20 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔ دو ہزار آٹھ سے لے کر 2013 تک بجلی کے بحران نے معیشت کو 15 ہزار ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے 40 فیصد سرمایہ کار ملک چھوڑ گئے مگر حکام ایک ہی راگ الاپتے رہے کہ سرکلر ڈیٹ اس بحران کی واحد اور بڑی وجہ ہے وہ بھول گئے۔
کہ سالانہ 230 ارب کی بجلی چوری ہو جاتی ہے۔ نیپرا کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ 5 برسوں میں تقسیم کار کمپنیوں نے 392 ارب یونٹ بجلی فراہم کی جس میں سے 311 ارب یونٹ کا بل آیا جبکہ 77 ارب 50 کروڑ یونٹ چوری ہو گئے۔ خیبر پختوانخواہ میں سالانہ 39 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔
سب سے کم چور راولپنڈی اسلام آباد میں ہیں مگر یہاں بھی سالانہ 79 کروڑ یونٹ چوری ہوتے ہیں۔ بجلی چوروں میں پہلے نمبر پر صنعت کار ہیں پھر کمرشل صارفین ہیں۔ اس دھندے میں جاگیردار بھی کسی سے کم نہیں۔ بجلی چوری کے خلاف موثر قانون سازی نہ کی گئی تو قومی خزانے کی تجوری خالی رہے گی اور بحران بھی جاری رہے گا۔