تحریر : میر افسر امان دو بڑی پارٹیوں کے سربراہوں نے ملک کے غریب عوام کے خزانے کو بے دردی سے لوٹ کر اثاثے بنائے اور پھر ان اثاثوں کو مہارت سے بیرون ملک منتقل کر دیا۔ بار بار اقتدار میں رہنے کی وجہ سے ملک کے سارے اداروں کے سربراہ ان دو بڑی پارٹیوں کے تعینات کردہ ہیں جس وجہ ان کے خلاف عوام کے خزانے میںخرد برد پر کوئی بھی ادارہ کاروائی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان حالات میں پاکستان میں نئی اُبھرتی ہوئی سیاسی جماعت تحریک انصاف نے ان دونوں کی کرپشن کو عوام میںخوب اُچھالا۔دونوں سیاسی پارٹیوں کے سربراہوںنے میثاق جمہوریت معاہدہ کیا۔اس معاہدے کے تحت جمہوریت کو آمریت سے بچانے کی تدبیروں پر اتفاق ہوا تھا۔
جمہوریت کو بچانے کی بات تو عوام کو جھانسا دینے کی تھی۔ اصل میں ایک دوسرے کی لوٹ مار کو تحفظ دینا تھا۔ سپریم کورٹ میں سو سے زیادہ میگا کرپشن کیسز لائے گئے جن پر ان اداروں نے کوئی بھی کاروائی نہیں کی۔ بلکہ اس پر ملک کے اداروں نے چشم پوشی کی۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹ کمیٹی نے اداروں کے سربراہوں کو جواب دہی کے لیے بلایا تو اوّل تو کئی دفعہ بلانے کے بوجود وہ حاضر نہیں ہوئے تو پھر کمیٹی نے اپنے اختیار استعمال کرتے ہوئے ان اداروں کے سربراہوں کو حاضری کے لیے حتمی نوٹس جاری کیے۔ان اداروں کے سربراہ کمیٹی کے سامنے حاضرہوئے۔ وہاں سب نے یک زبان ہو کر یہ کہا کہ ملک کے سربراہ کی کرپشن پر کاروائی کے لیے ان کے پاس اختیارات نہیں یا کاروائی کے لیے یہ حضرا ت تیار ہی نہیں۔ اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے اداروں کے سربراہوں کے کمیٹی کے سامنے جواب کواپوزیشن نے عوام کے سامنے خوب اُچھالا ۔ اس سے عوام میں اپنے حکمرانوں کی کرپشن کے متعلق معلومات عام ہوئیں۔
پارلیمنٹ سے مایوس ہونے کے بعدحکمران پارٹی کے ناجائز اثاثوں کے متعلق ملک کی تین پارٹیوں تحریک انصاف،جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ نے سپریم کورٹ میں درخواستیں داہر کیں جس پر سپریم کورٹ میں کاروائی شروع ہوئی۔ کاروائی کے دوران سپریم کورٹ نے بھی ریمارکس دیے کہ جن اداروں کا م کرپشن پکڑنا تھا ان اداروں نے اپنا کا م نہیں کیا۔ عوام کے نمائندوں نے تو اس کرپشن کو پکڑنے کے لیے پارلیمنٹ میں پورا زور لگایا مگر ان کی ایک نہ سنی گئی۔ اب ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے علاوہ عوام کے پاس ان اثاثوں کو ملک واپس لانے کا کوئی بھی ذریعہ نہیں۔ عدلیہ کے پانچ معزز ججوںنے اپنے اپنے طور پر فیصلہ لکھا۔فیصلے میں عدلیہ کے دو ججوں نے نواز شریف کوعہدے سے ہٹانے کی اور تین ججوں نے ساٹھ دن میں مذید تحقیق کا فیصلہ لکھا۔ عدلیہ کے فیصلے کے تحت ایک جے آئی ٹی کمیٹی بنی جس کو ساٹھ دن کے اندر تحقیق کر کے اپنی تحقیق سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔ پاکستان کے غریب عوام کے لیے یہ بات باعث اطمینان بنی کہ پہلی دفعہ حکمران کے بیٹوں کو سپریم کورٹ کی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر ان کے سوالات کا جواب دینا پڑا۔ وزیراعظم کے بڑے بیٹے نے کہا کس بات کی معلومات کی جارہی ہیں اس کا تو ہمیں علم ہی نہیں۔ ہمارے اثاثے وہی ہیںجو مشرف دور میں تھے۔جبکہ وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ مشرف دور میں ہمارے اثاثے زیرو ہو گئے تھے۔بعد میں ان کے خاندان نے پہلے دبئی اور پھر سعودی عرب جدہ میں اسٹیل ملیں لگا کر اثاثے بنائے۔ عدالت میں پیش کرنے کے لیے وزیر اعظم نے قطری شہزادے سے لیٹر بھی منگوایا۔ صاحبو!جے آئی ٹی نے عوام کی امنگوں کے عین مطابق اپنا کام کیا عوام اس سے بہت خوش ہیں ۔اب کمیٹی پاکستان کے وزیر اعظم کو سوالات کے جوابات دینے کے لیے کسی وقت بھی طلب کر سکتی ہے۔
حکمران جماعت کے ترجمان نے نئی اُبھرتی ہوئی سیاسی پارٹی پر آگ سے کھیلنے کا الزام لگایا جبکہ وہ خود آگ سے کھیل رہے ہیں۔ اس پارٹی کے سربراہ نے تو انتھک کوشش کر کے عوام کے اندرحکمرانواں کی کرپشن کے خلاف شعور کو بیدار کرنے میں بہت کام کیا ہے۔ وزیر اعظم کے بیٹوں کی جے آئی ٹی میں پیشی اور سوالات کے جوابات اور وزیر اعظم کی ممکنہ پیشی کوسامنے رکھتے ہوئے نون لیگ کے سینیٹر نہال ہاشمی نے تو ساری حدیں عبور کر لیں۔ انہوں نے عدالت کو للکارتے ہوئے کہا، نواز شریف کے بیٹے کا حساب لینے والو سن لو ہم تمھارے خاندان کے لیے پاکستان کی زمین تنگ کر دیں گے۔ تکبر میں مبتلا حکمران اور ان کے ترجمان نے جے آئی ٹی اور عدلیہ کے ججز صاحبان اور ان کے بچوں کو دھمکیاں دیں۔یہ بات بھی عجیب ہے کہ ُادھر یہ بیان آیا اور اِدھر فوراً نون لیگ کی وزیر مملکت نے کہا کہ نہا ل ہاشمی کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے یہ ان کی ذاتی رائے ہے اس سے نون لیگ کا کوئی واسطہ نہیں۔ نواز شریف صاحب نے بھی نہال ہاشمی کو پارٹی سے نکال دیا اور نہال ہاشمی نے سینیٹر کی سیٹ سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ نہ شوز کاز نوٹس نہ مشاورت بس نواز شریف صاحب نے دفتر میں طلب کیا یہ سب کچھ اچانک ہو گیا اس سے شکوک نے جنم لیا۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اپوزشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ نہال ہاشمی نہیں نواز شریف بول رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور سینئر وکیل اور رہنما نے کہا کہ نہال ہاشمی نواز شریف کی زبان بول رہے ہیں ۔ اور اگر نواز شریف دو سال مذید اقتدار میں رہے تو نہال ہاشمی کو سندھ کا گورنر بنا دیں گے۔ عمران خان نے کہا نہال ہاشمی کی دھمکیاں نون لیگ کی سیاست ہے۔نون لیگ لوگوں کوخریدتی ہے یا انہیں ڈراتی ہے۔ نون لیگ نے جان بوجھ نہال ہاشمی کا ڈرامہ رچایا۔ تحریک انصاف کے ترجمان نے کہا کہ ڈان لیگ پر پرویز رشید اور طارق فاطمی کو قربانی کا بکرابنایا گیانون لیگ کی کاروائی کو مضحکہ خیز قرار دیا۔ جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹر سراج الحق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہو کہا کہ جے آئی ٹی کو دھمکیاں دینے پر حکومت کو معافی مانگنی پڑے گی۔ حکومتی رویہ شروع دن سے جارحانہ ہے۔ عدلیہ کو دھمکا کے من پسند فیصلے لینے کی خواہش پوری نہیں ہو گی۔قوم عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے۔ حکمران پانامہ اسکینڈل کا فیصلہ متنازع بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ قطری شہزادے کو بھی دستا ویز لانی پڑے گی۔ وزیراعظم پر کرپشن اور منٰ لانڈرنگ کا الزام ہے۔حکومت تاثر دینا چاہتی ہے کہ انصاف نہیں ہو رہا۔ وہ وقت گیا جب سپریم کورٹ کو تقسیم کیا جا سکتا تھا۔حکمران خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔عدلیہ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے نہال ہاشمی کو کورٹ میں حاضر ہو کر وضاحت کے لیے کہا۔ گو کہ انہوں نے قسم کھا کر بات مڑوڑ توڑ کے پیش کی اور کہا کہ میں نے عدلیہ اور جے آئی ٹی کے خلاف بات نہیں کی۔
سیاسی کارکن کی حیثیت بات کی مجھ سے کوئی جواب نہیں دلوایا گیا۔ مگر سامنے سپریم کورٹ کے قابل ترین اور سینئر ججز صاحبان ہیں جنہوں نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہ ہمارے بچوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ بدترین دشمن بھی بچوں کو دھمکیاں نہیں دیتے۔ یہ دہشت گرد یتے ہیں۔ ہمیںمطمن کرنا ہو گا کہ الفاظ نہال ہاشمی کے ہی تھے۔ کیسے مان لیں نہال ہاشمی کے پیچھے کوئی اور نہیں تھا۔یاد رہے کہ نہال ہاشمی وزیر اعظم کی میڈیا کمیٹی کے فعال ممبر ہیں۔ وزیر اعظم کے کرپشن کے معاملے دفاع کے لیے ہر وقت میڈیا پر چھائے رہتے ہیں۔ صاحبو! نواز شریف پہلے فوج کے جنرلوں سے الجھتے رہے۔ اس کے بعد ڈان لیکس کے مسئلے پر فوج کی نارضگی بھی مول لی۔ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ پر حملے کیا تھا۔ اب سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی اورججز کو دھمکیوں پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ریماکس دیے تو حکومت نے بیان دیا کہ مبینہ ریمارکس کورٹ کے ضابطہ کار کے منافی ہیں اس سے پاکستان کی شناخت کو گہرا دھچکا لگا ہے۔ اپنی عادت بدلنے کے لیے تیار نہیں اور ملک کے اعلیٰ اداروں سے ٹکرانے پر بضد رہتے ہیں۔ یہ مقدمہ عوام کی لوٹی ہوئی دولت کا ہے ۔ اسے ہر حالت میں منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے۔ عوام کا آخری سہارا عدلیہ مگر حکمران تکبر میں مبتلا ہیں۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان