بنگلہ دیش (جیوڈیسک) چوتھی مرتبہ بنگلہ دیشی وزیراعظم کے بہ طور منصب سنبھالنے والی بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے ایک خصوصی انٹرویو میں اشارہ دیا کہ ممکنہ طور پر اس عہدے پر وہ آخری مرتبہ براجمان ہوئی ہیں۔
اس خصوصی بات چیت میں حسینہ واجد کا کہنا تھا کہ وہ نئی نسل کے لیے جگہ چھوڑنا چاہتی ہیں تاکہ نئے رہنما سامنے آ سکیں۔ فقط ایک ماہ قبل شیخ حسینہ واجد نے چوتھی مرتبہ (مسلسل تیسری مرتبہ) وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔ ان کی جماعت عوامی لیگ اور اتحادی جماعتوں نے پارلیمان کی 96 فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ کسی بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے گفت گو میں انہوں نے پہلی مرتبہ کہا کہ وہ آئندہ انتخابات میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے میدان میں نہیں آئیں گی۔
ان کا کہنا تھا، ’’یہ تیسرا مسلسلہ موقع ہے اور اس سے قبل میں سن 1996 سے 2001 تک بھی وزیراعظم رہ چکی ہوں، سو یہ مجموعی طور پر چوتھی مدتِ وزارت عظمیٰ ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ میں یہ سلسلہ جاری رکھوں۔ میرے خیال میں سبھی کو وقفہ درکار ہوتا ہے، اس طرح نئی نسل کو اوپر آنے کی راہ ملتی ہے۔‘‘
شیخ حسینہ واجد کے زیر قیادت بنگلہ دیش نے کئی شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے اور اب بنگلہ دیش کم سے درمیانی آمدن کی جانب پیش قدمی کرنے والے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کی اقتصادیات میں سالانہ چھ تا سات فیصد نمو ہو رہی ہے جب کہ تجارت میں بہتری اور غیرملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
تاہم ترقی میں اضافے کے باوجود عالمی بینک کے مطابق ہر چار میں سے ایک بنگلہ دیشی شہری غربت کی لکیر کے نیچے ہے۔ اس لیے آئندہ برسوں میں بھی شیخ حسینہ کے لیے، غربت سے لڑائی کا تسلسل پہلی ترجیح کے طور پر جاری رہے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’خوراک، رہائش، تعلیم، صحت، روزگار، یہ بنیادی ضرورتیں ہیں۔ ظاہر ہے، ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ ایک بہتر زندگی جیے، ہمیں یہ ممکن بنانا ہے۔‘‘
اقتصادی ترقی اور نمو کے باوجود شیخ حسینہ کے ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کے دور میں آزادیء اظہار رائے پر پابندیوں اور آزاد خیال افراد پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم حسینہ واحد کے مطابق وہ آزادیء رائے کی بھرپور حمایت کرتی ہیں اور تنقید کو فطری حق تصور کرتی ہیں۔ ’’جب آپ زیادہ کام کرتے ہیں، تو آپ پر تنقید بھی زیادہ ہوتی ہے۔ آپ میرے لوگوں سے دریافت کیجیے کہ وہ مطمئن ہیں یا نہیں۔ وہ کیا سوچتے ہیں اور کیا انہیں وہ مل رہا ہے، جس کی انہیں ضرورت ہے اور کیا میں وہ مہیا کر رہی ہوں؟‘‘
شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اس جماعت نے ملک میں سیاسی مخالفت کی جگہ کو کم تر کر دیا ہے اور ملک کو ’یک جماعتی‘ ریاست کی جانب لے جا رہی ہیں، تاہم حسینہ واجد نے اس الزام کو رد کیا۔ ’’اس بار عوامی لیگ کے امیدوار مجموعی طور پر 300 سو میں سے دو سو ساٹھ حلقوں میں کامیاب ہوئے، اس کا مطلب ہے کہ دیگر جماعتیں بھی پارلیمان میں موجود ہیں اور کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’اگر کوئی جماعت عوام کے دماغ تک نہیں پہنچ پا رہی، یا ان کا اعتبار اور ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہے، تو یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ ان کی اپنی کم زوری ہے۔‘‘
بنگلہ دیش میں لبرل طبقہ حسینہ واجد کی عوامی لیگ پر شدت پسند گروہ حفاظتِ اسلام سے قریبی تعلق اور انہیں خوش کرنے کا الزام عائد کرتا ہے۔ ان کی جماعت نے مدرسوں کی ڈگریوں کو بھی باقاعدہ تعلیمی اسناد کے بہ طور تسلیم کیا اور ’قومی مدرسہ‘ ڈگری کو ماسٹرز کی سند کے برابر قرار دیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ گروپ جو اس سند کی حمایت کرتے ہیں، وہ خواتین کے حقوق کے خلاف متحرک ہیں۔ بنگلہ دیش قومی مدرسہ تعلیمی بورڈ کے سربراہ شاہ حمد شفیع نے ابھی حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ لوگ لڑکیوں کو اسکول نہ بھیجیں۔
وزیراعظم حسینہ واجد نے اس بارے میں کہا، ’’میں بتا چکی ہوں کہ اس ملک میں سب کو آزادیء اظہار رائے حاصل ہے۔ اس لیے انہیں حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا اظہار کریں۔ تاہم میں خواتین کی تعلیم یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرتی رہوں گی۔ میں نے بارہویں جماعت تک تمام بچیوں کی تعلیم مفت کر دی ہے، جب کہ مزید تعلیم کے وظائف دیے جا رہے ہیں۔‘‘
حسینہ واجد کی حکومت کو شدت پسندی، خواتین کے حقوق اور لبرل افراد پر حملوں کے علاوہ میانمار سے ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچنے والے سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین کے بوجھ کے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد کوکس بازار میں انتہائی مخدوش حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ عوامی لیگ حکومت ان مہاجرین کے حوالے سے کئی متبادل اقدامات پر غور میں مصروف ہے۔
حسینہ واجد نے اس حوالے سے کہا کہ ملک کو وسط مدتی اور طویل المدتی بنیادوں پر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ’’ہم نے ان انتہائی مشکل حالات میں رہنے والے مہاجرین کی زندگیوں میں بہتری کے لیے ایک جزیرہ شناخت کیا ہے، جہاں سمندری طوفان سے تحفظ کے لیے شیلٹر ہاؤسز موجود ہیں۔ انہیں وہاں لے جایا جا سکتا ہے اور روزگار دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح نوجوان مرد اور خواتین آمدن کے لیے کچھ کر سکیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں میانمار کے علاوہ چین اور بھارت سے بھی بات چیت کی جا رہی ہے جب کہ انہوں نے بین الاقوامی برادری بہ شمول یورپی یونین سے بھی کہا کہ یہ بوجھ بانٹنے میں مدد فراہم کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ان مہاجرین کو امداد پہنچانا ہی نہیں، بلکہ ان کی واپسی کے لیے راہ ہم وار کرنا بھی ہے۔