تحریر : راجہ وحید احمد اس ملک میں سب سے آسان ٹارگٹ سیاستدان، سب سے آسان کام سیاستدانوں کو کوسنا اورلعن طن کرنا، سب سے بہترین مشغلہ سیاستدانوں کو ہدف تنقید بناناآپ اخبارات کی زینت بننے والے آرٹیکلز پڑھیں، شوشل میڈیا پرچار چاند لگانے والی خبریں دیکھیں، الیکٹرانک میڈیا پر اینکر پرسن کی چیخ و پکار سُنیں ، بس میں سفر کرتے ہوئے لوگوں کی باتیں سُنیںیا گاوُں کے کسی چوپال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے تبصرئے بس موضوع ایک ہی سیاستدان مجھ کو سمجھ نہیں آتی کہ یہ سیاستدان کس کھیت کی مولی ہیں کہ ہر طرف ان کے ہی چرچے ملک میں کوئی بھی مسئلہ خواہ دھاندلی ،کرپشن ، دہشت گردی ، این آر او ، جمہوریت کا عدم استحکام ،خارجہ پالیسی کی ناکامی یا آمریت کا ظہور پذیر ہونا ہر مسئلے کا سہرا سیاستدانوں کے سر اور ان کا سر بھی کمال اتنا بوجھ اُٹھانے کے باوجود ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہاکہتے ہیں ان پر الزامات لگانے سے پہلے ہم کو یہ بھی سُوچنا ہوں گا کہ سیاستدانوں کے پاس حکومت کرنے کے لیے با اختیار کتنے ہیں تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی این آر او کا ایک سر ا اگر سیاستدانوں کے ہاتھ میں تو دوسرا سرا کس کے ہاتھ میں الیکشن میں دھاندلی کا ایک سرا اگر سیاستدانوں کے ہاتھ میں تو دوسرا سرا کس کے ہاتھ میںلگتا ہے ساغر صدیقی نے سیاستدانوں کی ہی ان الفاظ میں ترجمانی کی ہے
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جُر م کی پائی ہے سزا یاد نہیں
سیاستدان کی معراج وزارت اعظمی اور یہ کتنی سہل کہ اس کے لیے وزیر اعظم نے سینے پر گولی بھی کھائی، پھانسی بھی چڑھے،جیلیں بھی کاٹی اور الزامات کے نشتر بھی برداشت کیے اور اس عہدہ پر کتنے سال براجمان رہیں بیتالیس سال اور دو سو ستانوئے دن ستر برس اور دو مہینے میں صرف بیتالیس سال اور دو سو ستانوئے دن ان میںآٹھ سال اور ترپن وہ دن بھی شامل جو آمر کی چھتری تلے بسر ہوئے اور ان بیتالیس سال اور دو سو ستانوئے دونوں میں بائیس وزیراعظم اور ان بائیس وزیر اعظم میں سے ایک ایسا جس کو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ پاکستان میں اُس کے باپ کی قبر کہاں کیا اُس کی شان و شوکت بھی سیاستدانوں کا کمال اس ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو چار سال دو مہینے اور دو دن وزارت عظمی کے عہدہ پر فائز رہنے کے بعد گولی مار کر شہید کر دیا گیا کس نے شہید کیا ایک آفغانی باشندئے سعد اکبر ببرک نے کیوں کیا کس کے کہنے پر کیا یہ لیاقت علی خان کی روح آج تک پوچھ رہی ہے اُس طرح ہی جس طرح آج میاں نواز شریف پوچھ رہے ہے کہ مجھ کو کیوں نکالا ساون میں بھی آسمان دیکھ کے بارش کا اندازہ ہو ہی جاتا ہے لیکن اس ملک میں کب وزیر اعظم کرپشن کے الزام میں فارغ اس کا اندازہ لگانا نا ممکن لیاقت علی خان کے بعد خواجہ ناظم الدین ایک سال چھ مہینے گورنر جنرل غلام محمد نے ان کی حکومت کو ختم کر دیا۔
پھر محمد علی بوگرا دو سال تین مہینے چھبیس دن گورنر جنرل سکند ر مرزا نے ان کی حکومت کو ختم کر دیاچوہدری محمد علی ایک سال ایک مہینہ گورنر جنرل سکندر مرزا کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے استعفی دینا پڑا حسین شہید سروردی ایک سال ایک مہینہ پانچ دن ان کو بھی گورنر جنرل سکندر مرزا کی وجہ سے گھر جانا پڑاابراہیم اسماعیل چندریگر ایک مہینہ اُنتیس دن ان کو بھی استعفی دینا پڑافیروز خان نون نو مہینے اکیس دن ان کی حکومت کو بھی برخاست کر دیا گیانو ر الامین تیرہ دن ذولفقار علی بھٹوتین سال دس مہینے اکیس دن اس کے بعد ان کو نشان عبرت بنا دیاگیا ذولفقار علی بھٹو کی موت کو تاریخ نے جوڈیشل مرڈر قرار دیااور اس جوڈیشل مرڈر کی وجہ سے عدلیہ کے آج تک ہونے والے فیصلے بھی تحفظات کا شکار ہو گئے محمد خان جونیجو(دور آمریت) تین سال دو مہینے پانچ دن جنرل ضیا الحق نے اپنے ہی نامزد کردہ وزیر اعظم کی حکومت کا خاتمہ کر دیابے نظیر بھٹو ایک سال آٹھ مہینے چار دن صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزامات میں ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا میاں محمد نواز شریف دو سال پانچ مہینے بارہ دن غلام اسحاق خان نے ان کو بھی کرپشن کے الزم میں فارغ کر دیا۔
سپریم کورٹ نے ان کو بحال کیا لیکن صرف ایک مہینہ بائیس دن بعد ان کو چیف آف آرمی سٹاف کی مداخلت کے بعد استعفی دینا پڑابے نظیر بھٹو تین سال سترہ دن اپنے ہی نامزد کردہ صدر پاکستان فاروق لغاری نے ایک بار پھر کرپشن کے الزامات لگا کر ایوان وزیر اعظم سے ان کو رخصت کر دیامیاں محمد نواز شریف دو سال سات مہینے پچیس دن چیف آف آرمی سٹاف جنر ل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کو ختم کر دیا کرپشن کے کیس بنائے لیکن پھر ایک این آر او کے تحت تما م کیسز ختم کر کے سعودی عرب بھیج دیا ظفر اللہ خان جمالی (دور آمریت) ایک سال سات مہینے تین دن جنرل پرویز مشرف نے اپنے ہی نامزد کردہ وزیر اعظم کو فارغ کر کے چوہد ری شجاعت حسین(دور آمریت) کو صرف ایک مہینہ اور ستائیس دن کے لیے وزیر اعظم نامز د کیا پھر ایک بینکار شوکت عزیز(دور آمریت) کو قومی اسمبلی کا ممبر منتخب کروا کے تین سال دو مہینے اٹھارہ دن کے لیے وزیر اعظم مقرر کیا یوسف رضا گیلانی چار سال دو مہینے پچیس دن چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے نااہل قرار دئے کر ان کو وزارت اعظمی سے فارغ کر دیا۔
راجہ پرویز اشرف نو مہینے دو دن پھر نئے الیکشن کے بعد میاں محمد نواز شریف نے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا چار سال ایک مہینہ تیس دن کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کو نا اہل قرار دیا ان ہی کے جماعت کے ایک اور ممبر شاہد خاقان عباسی نے یکم اگست 2017 کو وزیر اعظم پاکستان کا حلف لیا لیکن اب پھر بساط بچھائی جا چکی ہے چالیں چلی جا رہی ہیںپیادوں سے بادشاہ کو مات دی جا رہی ہے ایک نیا بادشاہ بنانے کی تیاری مکمل ہے اس دفعہ تاج راولپنڈی کے ایک راجپوت کے سر پر رکھنے کا عزم ہے خاندان بھی ٹوٹ سکتا ہے بھائی بھی چھوڑ سکتا ہے مسلم لیگ (ن) سے بچہ بھی پیدا ہو سکتا ہے تمام مسلم لیگیوں کو اکٹھا کرنے کے خواب کو بھی عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے شاہد خاقان عباسی کے خلاف اسمبلی میں مارچ سے پہلے تحریک عد م اعتماد بھی لائی جا سکتی ہے اس وقت جو ملک میں ہو رہا ہے وہ اس ملک کے لیے اچھا نہیں ہے میرئے یہ تمام الفاظ دو شخصیات کے بیانات کے مرہون منت ہیںایک ڈی جی آئی ایس پر آر جنرل آصف غفور کا بیان ،،کوئی فرد ادارے سے اور کوئی ادارہ ملک سے بالا تر نہیں،، خواہش ہے کہ اس طرح ہی ہوں لیکن کیا جنرل پرویز مشرف کا فیصلہ وہ این آر او جس میں کرپشن، دہشت گردی، قتل کے تمام الزامات ختم کردیے گئے تھے کیا وہ فیصلہ فرد واحد کا تھا اگر فرد واحد کا تھا تو پھر وہ ادارئے سے بالا تر اور اگر ادارے کا تھا تو پھر ملک سے بالا تر دوسرا بیان شیخ رشید کا جو انتہائی خطرناک ،،اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔
کیا واقعی کوئی نیا این آر او ہونے جا رہا ہے کیا اس تمام ڈرامے کا مقصد صرف ایک شخص کو حکومت سے بے دخل کرنا تھا یا واقعی پہلی بار ملک میں کرپٹ لوگوں کا احتساب شروع ہو ں چکا ہے کیا واقعی عدلیہ اور نیب آزاد ہیں یا پھر ایک حکیم کی دکان سے لے کر ایک ایسا کُشتہ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے عدلیہ اور نیب کے بدن میں نئی پھرتیاں بھر گئی ہیں پچھلی حکومتوں کو ہمیشہ کرپشن کے الزامات کے تحت ہی نکالا گیا ہے سابق صدر آصف علی زرداری کرپشن کے کیسز میں گیارہ سال جیل میں رہے اور باعزت بری،سابق وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی حج سکینڈل میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کئے گئے لیکن باعزت بری پاکستان کی تاریخ اس طرح کی ہزاروں مثالوں سے مزین میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دینے والا عدلیہ کا فیصلہ پہلے ہی قانون دانوں کی نظر میں کمزور عدلیہ کے فیصلے پریشر میں آ کر یا میڈیا پر ہونے والے ٹاک شوز کو دیکھ کر نہیں کیے جاتے اب نیب میں ہونے والے ٹرائل کی نگرانی بھی سپریم کورٹ خود کر رہی ہے فیصلہ صاف شفاف ہونا چاہیے اگر شریف فیملی پر کرپشن ثابت ہوتی ہے تو ایک بار پھر اس ملک کی عوام کی قسمت کو این آراو کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے اب کی بار بھی اگر قانون کے مطابق انصاف پر مبنی فیصلہ نہ آیا تو یہ بہت سارئے اداروں کو کمزور کر دئے گا اور ہو سکتا ہے یہ وار اس ملک کے اداروں پر ایک کاری اور آخری وار ہو۔