جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ اکثریت کی رائے کا احترام کیا جائے اور پارلیمان کو سپریم ادارہ سمجھا جائے، لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں تمام جمہوری اقدار اس سے قدرے مختلف ہے،وطن عزیز میں جمہوریت چھوئی موئی کے پودے کی طرح ہے۔مسئلہ یہ نہیں کہمملکت میں جمہوریت مستحکم کیوں نہیں ہو رہی، بلکہ پریشانی یہ ہے کہ عوام اپنا محاسبہ کب شروع کریں گے۔سمجھا جاتا ہے کہ پاکستانی عوام کی فطرت جمہورانہ نہیں،ابتدا سے ہی ان میں شخصیت پرستی کا رجحان ہے۔اس کے علاوہ ریاست کی بودوباش میں آمرانہ احکام کو تسلیم کرنے کی روش زیادہ ہے۔ اگر ہم ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ہندوستان (متحدہ پاک و ہند) پر بیرونی حکمران مسلط ہوتے رہے ہیں۔افغان،مغل سمیت انگریزوں نے ہندوستان (متحدہ پاک و ہند)پر اقلیت ہونے کے باوجود حکومت کی۔ برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں میں یہ خوف پیدا ہوا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندو ان پر مسلط ہوجائیں گے، اس لیے انھوں نے دھرنوں، مظاہروں اور جلسے جلوس کرکے پاکستان حاصل کرنے کے لیے قائد اعظم ؒکو اپنا لیڈر بنا لیا۔
ؒؒؒ ؒؒؒشخصیت پرستی کا سحر ہم پر حاوی ہے۔ بھارتی عوام میں شخصیت پرستی اس کے مذہب کے ساتھ مختلف شخصیات میں تقسیم تھی اس لیے گاندھی کے ساتھ ساتھ اس کے دوسرے رہنماؤں کی آج تک ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے پرستش کی جاتی ہے۔چونکہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اس لیے ان توہمات کے لیے اس سرزمین میں کوئی جگہ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود شخصیت پرستی کے اس سحر سے پاکستانی عوام خود نہیں نکال سکے۔ پاکستانی عوام میں ایک یہ عجیب خوبی بھی ہے کہ جب تک کوئی بھی سیاسی یا غیر سیاسی شخصیت اقتدار میں ہوتی ہے تو اس کی خامیاں کسی کو دکھائی نہیں دیتیں، لیکن اس کے جانے کے بعد اس کی تمام خوبیاں یک لخت ختم ہوجاتی ہیں اور خامیوں کا پنڈروا بکس کھل جاتا ہے۔چونکہ پاکستانی عوام کو دوبارہ شخصیت پرستی کے لیے کسی نہ کسی کی ضرورت تھی اس لیے زمانے کے مدوجزر سے قائد عوام کے نام سے ذوالفقار علی بھٹو پیدا ہوئے، عوام کو ان میں اپنی پریشانیوں کا مسیحا نظر آنے لگا،لیکن پھر دھرنوں، مظاہروں اور جلسے جلسوں کی سیاست نے ملک کو دو لخت کردیا اور پاکستانی قوم اپنی عادت کے مطابق بھول گئے کہ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن چکا ہے۔
وہ یہ بھی بھول گئے کہ پاکستان کو شکست ہوئی اور اس کے نوے ہزار فوجی قیدی بنا لیے گئے، پاکستان کو متفقہ آئین دے کر تاریخ میں خود کو زندہ رکھ لیا، لیکن اسی قائد عوام کو ایک بار بھر دھرنوں، مظاہروں اور جلسے جلوسوں نے تختہ دار تک پہنچا دیا۔
پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے کو اکیلا دفن کردیا گیا اور دھرنوں کے بعد جب ضیا الحق آئے پاکستانیوں نے ان میں اپنا رہبر تلاش کرنا شروع کردیا۔ نظام مصطفی (ﷺ) کے نفاذ کے دل فریب نعرے نے پاکستانی عوام کو دھوکے میں رکھا، پاکستان کو نہ ختم ہونے والی افغان جنگ میں الجھا دیا گیا اور آج تک پاکستان عالمی طاقتوں کے لییکرتب بازی کی آجامگاہ بنا ہوا ہے، جس میں بیشتر حکمرانوں کا کردار ”جوکر‘ کا ہے جو اپنے چہروں کو چھپانے کے لیے رنگ روغن کرلیتے ہیں اور عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہے اور وہ بہت خوش ہیں۔پاکستان میں ایک بار پھر دھرنے، مظاہرے اور جلسے جلوس شروع ہوئے اور پھر یہاں پاکستانی عوام نے تقسیم کی راہ لی اور ایک طرف نواز شریف کو لیڈر بنایا تو دوسری جانب بے نظیر بھٹو، اُس وقت تیسری بڑی جماعت کی گنجائش بہت کم نکلتی تھی۔
تیسری پارٹی کے بجائے پاکستان میں تیسری قوت کا رجحان زیادہ رہا، اس لیے اقتدار میں کبھی پہلی قوت تو کبھی دوسری قوت۔ پرویز مشرف بھی سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کے ساتھ اقتدار پر براجمان ہوئے اور برسوں پاکستانی عوام پر حکومت کرتے رہے اور ایک بار پھر دھرنوں، مظاہروں اور جلسے جلوسوں نے انھیں رخصت کیا، شہید جمہوریت کی قربانی کے بعداب کوئی ایسی شخصیت نہیں تھی کہ پاکستانی عوام اپنی ماضی کی روایات پر قائم رہتی، آصف علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کے خلا کو بظاہر پورا کرنے کی کوشش میں سب پر بھاری بن گئے۔بلاول زرداری کو پاکستانی مزاج کے مطابق بلاول بھٹو زرداری بنایا اورعوام کو نئی شخصیت دے دی۔
نواز شریف پاکستان کے تین مرتبہ وزیر اعظم بنے، لیکن ان کی شخصیت متفقہ قومی شخصیت نہ بن سکی، اس لیے عوام نے اپنی شخصیت پرستی کا محور عمران خان کو بنالیا اور ان سے توقعات وابستہ کرلیں۔عمران خان کو ماضی میں کامیابی نہیں مل سکی تھی لیکن جب ان پر ہاتھ رکھا گیاتو ان کے بھی دھرنے، مظاہرے اور جلسے جلوس کامیاب ہونے لگے اور پاکستان میں قومی سطح پر اقتدار میں حصہ لینے کے لیے اب عوام کے سامنے تین شخصیات سامنے تھیں۔یہیں سے ساری گڑبڑ شروع ہوئی کہ جمہوریت کے اس چھوئی موئی کے نازک پودے نے اگر تنا ور درخت کی شکل اختیار کرلی تو پھر دھرنے، مظاہرے اور جلسے جلوس کرکے اقتدار تبدیل نہیں کیے جا سکیں گے۔
اب تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جمہوریت کیا بن گئی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ پاکستان میں ابھی بھی جمہوریت مستحکم نہیں ہوئی، سیاست دان ابھی پختہ ذہن اور جمہوریت پسند نہیں ہیں اور ان میں عدم برداشت کا مادہ زیادہ ہے۔دھرنوں کے مقام سے خود اٹھ کر نیا پاکستان بنانے والوں کے جانے سے ان کے قوت فیصلہ کا اندازہ ساری دنیا کو ہوچکا اس لیے ان پر بحث کرکے بلاوجہ الفاظ ضایع ہوں گے۔ شخصیت پرستی کا سحر تو ان میں بھی ہے کیونکہ ہیں تو ہم سب پاکستانی ہی، بھلا شخصیت پرستی کے سحر سے کہاں نکل سکتے ہیں۔ شخصیت پرستی کا سحر جب ختم ہوگا،جب ہم شخصیات کے بجائے ادارے مضبوط بنائیں گے اور یہی واحد راستہ ہے۔