تحریر: شاہ بانو میر روز نامہ تحریک انصاف کے پیج پر ایک نام دیکھا”” ھارون الرشید”” میرے پسندیدہ صحافی جن کی قوت گویائی کی ہمیشہ سے معترف رہی ہوں جو تحریک انصاف ہو یا عمران خان درست بات پر بھرپور حمایت کرتے ہیں اور غلطی پر دو ٹوک ناراضگی کا اظہار کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم سب کو عدالت میں جا کر اپنے اعمال کا جواب دینا جہان کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکتا تو حق کہنا ی ہی تحریک کے ساتھ وفاداری ہے اس میں کامیابی ہے ـ تحریک انصاف کیلئے یہی سوچ ہمیشہ سے میری بھی رہی کہ وہ ماں نہ بنوں جو حق نہ کہے اور اولاد سلطانہ ڈاکو کی صورت سامنے آ جائے
اسی لئے ہمیشہ سے تحریک انصاف کیلئے برملا وہ کہا جو اس کے لئے فائدہ مند ہے خواہ وقتی طور پے وہ تحریر کونین کی گولی جیسی کڑوی کیوں نہ ہوـ اس تحریر کو بھی ٹھنڈے سمجھدار دماغ سے پڑہیں تا کہ پاکستان کو بچائیں پاکستان بچے گا تو ہماری سیاست بچے گی ورنہ ناپاک دشمن تو تلا ہوا ہے نقشے سے اس کو مٹانے کیلئے ـ کئی ہفتے پہلے دھرنے سے عمران خان کو میڈیا کی بے پناہ توجہ حاصل ہوئی اور دن رات صرف دھرنا اور حکومتی جوابات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا دھرنے نے عروج پر پہنچی ہوئی کشمیر کی تحریک کو بالکل خاموش کر دیا تھا ـ اور اس وقت جس طرح لوہا گرم ہے اگر یہ موقعہ ہاتھ سے نکل گیا تو شائد تاریخ کبھی ہمیں معاف نہ کرے ـ خاص طور سے ماؤں کے لعل شہادتوں کے نزرانے پیش کرتے ہوئے خود کو پاکستانی پرچم میں چھپا کر لحد میں اتر رہے ہیں ـ
یہ تمام معاملات انتہائی سنجیدہ اور غور وفکر کے حوالے سے قابل غور تھے عمومی سوچ تھی کہ دھرنے سے خوفزدہ حکومت دانستہ طور پے سرحدوں پے چھیڑ چھاڑ کر رہی ہے تا کہ دھرنا ملتوی کر دیا جائے ـ سوال اٹھانے پر جواب ملتا تھا کہ بے فکر رہیں سرحدیں محفوظ ہیں نواز اور مودی کی ساز باز ہے کچھ نہیں ہو رہا ہے محض دھرنے کو روکنے کیلئے ناکام حکمت عملی ہے ـ ایسا رویہ اور ایسی سوچ؟ بہت کہنے کی کوشش کی کہ یہ سوچ ٹھیک نہیں کوئی سیاستدان برا ہو کرپٹ ہو مگر اپنے ملک کو یوں برباد نہیں کر سکتا ـ یہ فرینڈلی فائرنگ نہیں ہے بلکہ بھارت کا خون کھول رہا ہے کشمیریوں کے باغیانہ رویے پر اس لئے وہ پاکستان کو مزہ چکھانا چاہتا ہے تا کہ وہ اپنی لاشیں اٹھائے اور سوگ میں کشمیر پر جاری ظلم پر رد عمل نہ دے ـ
Indain Army
اللہ کا شکر جس مالک نے بچوں کے لہو کو بہنے سے بچا لیا ـ دھرنا کا ملتوی ہونا اظہار تشکر کا فیصلہ کامیاب اور اصل سیاست تھی ـ مجھ سمیت لاکھوں ماوؤں نےشکر کیا تھا ـ خطرہ ٹل گیا دھرنا نہیں ہوا مگر آج سرحد پر جاری کشیدگی اور نہتے معصوم شہریون کی بس پر بھارتی بزدلوں نے حملہ کیا اور 7 شھادتیں ہو گئیں ـ گو کہ پاکستان کی فوج نے فوری کاروائی میں ان سے بدلہ لے لیا مگر یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھارت کی مسلسل اشتعال انگیزی کسی بڑے ایڈونچر کا پتہ دے رہی ہے ـ اس کی بڑہتی ہوئی درندگی طے شدہ منصوبہ کا حصہ ہے ـ ایسے نازک وقت میں جب فوجیوں کی شہادت اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں ہیں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں ـ
اس وقت ہمیں بطور سیاسی کارکن اور بطور رہنما سوچنا ہوگا محض حکومت کو نیچا دکھانے کیلئے میں پاکستان کے ساتھ اپنے رویے میں بہتری کا موجب بن رہا ہوں یا رہی ہوں یا صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیلئے شور مچا کر اپنے رہنما کو سپورٹ کر رہی ہوں ـ یاد رکھیں عمران خان کے ساتھ اخلاص یہ نہیں ہے کہ ہر بات پے بغیر آخرت میں حساب دینے کی سوچ سے آزاد ہو کر جھوٹا نظام بنایا جائے ؟ یاد رکھیں وہاں ایک ایک عمل کا حساب ہونا ہے ہمارا بھی اور عمران خان کا بھی اچھا رکن ممبر دوست رہنما وہ ہے جو طاقتور دشمن کو سچائی حکمت تحمل سے شکست دینے کی کامیاب کوشش کرے ـ بھارتی جارحیت پر پی ٹی آئی کا یہ بیان کہ سرحدی چھیڑ چھاڑ محض ڈرامہ ہے
آج اتنی شہادتوں کے بعد ہر اہل دانش سوچ رہا ہے کہ یہ باقاعدہ جنگ ہم پر بہیمانہ طور سے مسلط کی جا رہی ہے ـ طرہ یہ ہے کہ عالمی برادری کے ساتھ تجارتی روابط اتنے مضبوط ہیں کہ پاکستان کے تمام سفارتی مشن بے سود ثابت ہوئے ـ بھارتی الزام پاکستان دہشت گرد ملک ہے اور مقبوضہ کشمیر میں یہی ہوا دے رہا ہے ـ اس سوچ کا طاقتور اثر ہمارے سفارت کار دیکھ کر مایوس لوٹے ہیں ـ اگر دھرنا ہونے کی صورت حکومت سے محاذ آرائی طول کھینچتی اور حکومتی مشینری عمران خان کے مضبوط سچے سوالوں کے جواب دینے میں مصروف رہتی اور سرحدوں پر معاملہ کچھ شہادتوں سے بڑھ کر اندرونی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کوئی کاری وار کر جاتا جیسا کہ 2014 میں پشاور اے پی ایس میں ہوا ـ پھر کیا ہوتا؟ “”را””ملک کے اندر ہمیں ہر آگ کے عقب میں دکھائی دیتی ہے ـ بھڑکتی آگ کے ظالم شعلے سیکڑوں جانوں کو ایک ہی نوالے میں نگل جاتی ہےـ
Gwadar Port
گوادر پورٹ کی تجارتی سرگرمیاں دشمن کے سینے پے سانپ بن کر لوٹ رہی ہیں ـ ہمیں نواز شریف کو اپنے اعصاب پے سوار کرانے کی بجائے بحیثیٹ سب سے طاقتور حزب مخالف کے طور پے اور ملک گیر جماعت ہونے کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ـ سیاست کو اب انصاف کے حوالے کر کے اپنی سوچ کو دیگر مسائل کی طرف موڑا جائے ـ بھارتی جنگی جنون کو دیکھتے ہوئے میرے کانوں میں بھارتی جرنیل کے جملے گونج رہے ہیں جو پچھلے سال کہے تھے کشمیر کے موضوع پر کہ “”پاکستان کی فوج کے بس سے باہر ہے کہ وہ طاقت کے بل پر ہم سے کشمیر لے سکتی ہے “” کل بھارتی تجزیہ کار کہ رہے تھے کہ “” نقشے پر بھی پاکستان کو رہنے دینا ہے یا نہیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا “”
اللہ اکبر ایسے وقت میں ہمیں پاکستان کی فکر کرنی ہے اور اپنے رہنما کو درست اور تاریخی رویہ کا کہنا ہوگا اور عمل سے ثابت بھی کرنا ہوگاـ معاملہ پاکستان کی اندرونی سلامتی کا ہو یا بیرونی حفاظت کا ہمارے ساتھ کوئی نہیں کھڑا کشمیر میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر سب بہرے اندھے بنے ہوئے ہیںـ ہم اپنے ملک میں سب مل کر ایک طاقت بن کر بھارت کو جواب دے سکتے تھے مگر افسوس کہ ہم نظام کی اصلاح کی تحریک اس وقت چلانے لگے جب اس کی طاقت مشکل وقت نے کمزور کر دی ـ دہشت گردی اور نا مناسب وسائل بتا رہے ہیں کہ ہم بات مضبوط کرتے ہیں مگرہمارے وسائل ناکافی ہیں مصائب سے نمٹنے کیلئےـ
Ship Fire
ایک بحری جہاز گڈانی میں 4 روز جل کر راکھ ہوا اور خود ہی آگ بجھی جس نے ہمارے اداروں کی حقیقت کھول دی کہ ہم ایک بحری جہاز کی آگ نہیں بجھا سکے؟ ٌکہاں پورا ملک ان سے بچانا کیا ممکن ہوگا؟ مجھے ہر بار دھرنے کے دنوں میں پاکستان کی بقا سے لاپرواہ اپنے رہنماؤں کے بیانات سے یہ دھڑکا لگا رہا کہ اس ملک کی سلامتی کو خطرناک خطرات لاحق ہیں مگر ہمارے رہنما یہی کہ رہے ہیں کہ فکر نہ کرو سب ڈرامہ ہے؟ جبکہ ہر سوچنے والا دماغ اور دور رس نگاہ بھانپ رہی تھی کہ حالات آسان نہیں ہیں گھمبیر ہیں ـ دشمنان وطن اکٹھے ہو کر نت نئے دہشت گردی کے گُر آزما کر ملک کو مسلسل تنزلی کی طرف لے کر جا رہے ہیں ـ ایسے میں نواز ہمارا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے ملک کی بقا سالمیت اور تحفظ کیلئے سامنے آنا ہوگاـ
جن لوگوں کیلئے پارٹی تحریک چلا رہی ہے بھارتی گولہ باری اور بڑہتی ہوئی دہشت گردی نے شہری ہی نہ رہنے دیے تو کہاں کا کرپشن سے پاک پاکستان ؟ جب پاکستانی ہی نہ رہے؟ ہم سب کو سوچنا ہوگا اگر ہم پارٹی سے مخلص ہیں تو ہمیں اپنے سیاسی ماضی کا احتساب کرنا چاہیے ـ ہماری کوششیں کیا کامیاب تھیں یا کمزوری تھی کہیں ؟ سیاسی حکمت عملی کا رخ تبدیل کرتے ہوئے اب شور کی بجائے خاموش سنجیدہ حکمت عملی تیار کر کے 201 کے الیکشن کی تیاری کرنی چاہیےـ
میری درخواست ہے تھنک ٹینکس سے کہ وہ سیاسی حکمت عملی کو یوں ترتیب دیں کہ اس میں جزبات ابھارنے کیلئے سیاسی کارکنوں کو مشتعل کرنے کیلئے ہم سیاسی داؤ پیچ آزمائیں نہ کہ ایسا آسان رویہ ملک کی سلامتی پر خطرناک حالات میں اپنائیں اگر خدانخواستہ اس ملک کو کچھ ہو جاتا تو وہ لوگ کیا تاریخ کو جواب دیتے جو ایک ہی جملہ کہتے رہے اور کہلواتے رہے یہ سب نواز مودی کا ڈرامہ ہے؟ کہیں ہم یہی کہتے کہتے ہنستے ہنستے اس ملک کو نہ گنوا دیں؟