ہنسنا سکھا دیا کبھی رونا سکھا دیا حالات و واقعات نے جینا سکھا دیا جس کو کبھی نگاہ میں لائے نہ عمر بھر اس خاکسارِ وقت نے جھکنا سکھا دیا جِیون کی تیز دھوپ میں جلتے وجود کو تِشنہ لبی نے زہر بھی پِینا سکھا دیا دیوانگیء شوق کی توقیر نے ہمیں راہوں کے خار خار پہ چلنا سکھا دیا اِس عہدِ اِضطراب میں مریم کے لعل نے ہم کو کِسی کے واسطے مرنا سکھا دیا ساحل ہمیں بھی شوق کی اندھی اڑان نے گِرنا سکھا دیا کبھی اٹھنا سکھا دیا