تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل دنیا بھر میں غنڈہ گردی کوایک بڑی بد عنوانی و جرم تصور کیا جاتاہے۔غنڈہ گردی کرنے والوں کو غنڈہ گرد کہا جاتا ہے۔دراصل غنڈہ گرد اپنے مفادات کے لئے سرعام مار پیٹ کرتے ہیں۔لوگ ان کے ناموں سے تھر تھر کانپتے ہیں۔روپے پیسے کے عوض غنڈہ گرد خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔بلکہ بہت سے قانون دان ، سیاستدان اور قانون پر عملدرآمد کروانے والے خود ان کے محافظ ہوتے ہیں۔کسی بھی ملک کے اندرونی انتشار و قتل وغارت میں ان کا ہاتھ ہوتا ہے۔پولیس اور دوسرے سیکورٹی ادارے اسے کاؤنٹر کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔جدید نظریے اور نئے واقعات کے پیش نظر غنڈہ گردوں میں صرف سول غنڈہ گرد ہی نہیں بلکہ سیاسی غنڈہ گرد قانونی غنڈہ گرد اور قوانین پر عملدرآمد کروانے والے غنڈے بھی موجود ہیں۔مختلف ترقی پذیر ممالک میں غنڈہ گردوں کی یہ ساری اقسام موجود ہیں۔پاکستان بھی ایسے ممالک میں سے ایک ہے جہاں قانون پر عملدرآمد کروانے والے ادارے ،لوگوں کو پرسکون ماحول فراہم کرنے اور جرائم کی روک تھام کے لئے تعینات کردہ سرکاری ملازمین بھی غنڈہ گردی کرتے ہیں اور یہی غنڈہ گرد سیاسی غنڈہ گردوں اور دہشتگردوں کو محفوظ ماحول و راستہ فراہم کرنے کے لئے قانونی گرفت کو پس پست ڈال کر غنڈہ گردی کی گرفت کو پروان چڑھاتے ہیں اور دن دیہاڑے قانونی گرفت کی آڑ میں جعلی مقابلوں میں عام عوام اور معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں ۔قانونی گرفت کی آڑ میں کھیلی جانے والی غنڈہ گردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔تھانوں کچہریوں میں بھی لوگ اس غنڈہ گردی سے متاثر ہوتے ہیں۔
نئے سال کا آغاز پاکستان کے لئے انتہائی اذیت ناک رہا۔نئی نوید کی بجائے پرانے جرائم اور مجرم کھل کر سامنے آنے لگے۔گڈ گورنس کے نعرے لگانے والی حکومتیں اور ادارے اور ان کی قانونی و ریاستی معاملات پر گرفت سب عیاں ہو گئے۔سال نو کے ابتدائی ہفتے میں افراتفری ، بے بسی،لاقانونیت،بدعنوانی اور جبر سب سامنے آگئے۔ ہمیشہ کی طرح امن و امان کو شکست دے کر جرائم نے غلبہ حاصل کیا۔قانون و قوانین کی تو دھجیاں اڑتی نظر آئیں۔بد عنوانیوں کی لہروں کی راہ میں نہ کوئی قانون غالب آیا نہ ہی کوئی قانونی ادارہ نہ ہی کوئی پارلیمنٹ نہ ہی کوئی جمہوریت، سب کی گورنس عیاں ہو گئی۔گزشتہ کچھ واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ وقت ضرور بدلا ہے مگر ظالم و مظلوم ہمیشہ ویسے ہی رہتے ہیں۔ظالم آج بھی اتنا بھیانک و جابر ہے اور مظلوم آج بھی معصوم و لاچار ہے۔ ہمیشہ کی طرح ہمارے منتخب نام نہاد جمہوری نمائندوں نے انسانیت کی اڑھتی دھجیوں پر مذمت ضرور کی مگراس نظام کو بدلنے کے لئے برسوں سے کچھ نہیں کیا جہاں قانون و قانونی گرفت کی بجائے جاگیرداروں نمبرداروں اور امراء کے اصول و حکم اور انہیں کی گرفت ہے۔آخر کوئی اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیوں مارے گا اور وہ بھی جاگیردار سیاستدان ہر گز نہیں وہ بھاؤلا تو نہیں نا۔جمہوریت کے دعویدار، سیاست و جمہوریت نام کی دکانداری کرتے ہیں اور باری باری اسے چمکاتے ہیں اور یوں ازلوں سے ان کے مفادات کا بازار گرم ہے۔
یاد رکھئے!’جب تک مفادات کا بیوپار سرگرم ہے تب تک ملک و ملکی خودمختاری کا ہی سودہ ہوگا‘۔ایسے میں ملک افراتفری کا شکار ہوگا جو ملک کو دھیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کردے گی۔گزشتہ چند روز سے قانون ،معاشرے یہاں تک کہ انسانیت کی جو دھجیاں اڑ رہی ہیں انہیں شاید سمیٹنا مشکل ہوجائے۔زینب قتل کیس ،اسماء قتل کیس اور ایسے ہی دیگر کئی جنسی درندگیوں کے اذیت ناک کیسز ہمارے معاشرے اور انسانیت کے خاتمے کی علامت ہیں۔یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں انسان نما حیوان آباد کار ہیں۔ایسے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں جو صرف حیوان ہی کر سکتے تھے مگر ہمارے باسیوں نے انہیں انجام دے کر حیوانوں کی ایک نئی قسم متعارف کروائی ہے جو دیکھنے میں تو انسانوں سی شکل و شباہت رکھتے ہیں مگر حقیقت میں حیوان ہیں کیونکہ انہیں نہ کسی رشتے کی پہچان ہے اور نہ ہی کسی رشتے دار کی نہ ہی کسی خون کی پہچان ہے۔یہ حیوان ہیں اور قانون سے بالاتر ہیں۔
ہر شخص خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔جس کا جو جی چاہتا ہے کرتا ہے۔ اچھے برے کی کوئی تمیز نہیں۔نہ کوئی قانون نظر آتا ہے نہ ہی کوئی قانون دان اور نہ ہی کوئی قانون پر عملدرآمد کروانے والا۔کوئی کسی قسم کی قانونی و ریاستی گرفت نہیں رہی سب اپنی ہی پالیسیوں پر گامزن ہیں۔قانون بنانے والے یعنی منتخب نمائندے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کی پاسداری نہیں کرتے۔قانون کو صرف اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں اور یہاں تک کہ ذاتی مفادات کی بنا پر پارلیمنٹ پر لعنت بھی بھیجتے ہیں اور عدلیہ و قانونی اداروں پر جملے کستے ہیں۔جس پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کر کے منتخب ہوتے ہیں پھر اس پر ہی لعنت بھیجتے ہیں۔خود ہی عدلیہ کو بحال کرواتے ہیں اور اپنے برعکس فیصلہ آنے پر عدلیہ کو جھوٹے و مکار جیسے لقب سے نوازتے ہیں۔قانون دان یعنی وکلاء قانون کی دھجیاں اڑانے سے باز نہیں آتے۔پاکستان کے دفاعی ادارے آرمی کو بھی اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے والے جرنیل بھی قانون کو ماننے کی بجائے اپنی من مانی کرتے ہیں۔پولیس والے خود کو غنڈہ سمجھتے ہیں اورقانون پر عمل کروانے کی بجائے قانون کو پامال کرتے ہوئے جعلی مقابلے کرتے ہیں۔
گزشتہ چند روز سے کراچی کے امن و امان کی صورتحال کھل کر سامنے آگئی ہے پہلے تو بغیر وردی یعنی سول غنڈے،بھتہ خور اور ٹارگٹ کلرز موجود تھے مگر اب کے بار تو سرکاری غنڈے بھتہ خور اور ٹارگٹ کلرز بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں متعدد واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں سندھ پولیس و سیکورٹی اداروں کی طرف سے متعدد معصوموں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔نقیب ہو یا مقصود یا کوئی اور تمام واقعات ہمارے اداروں کے منہ پر طمانچے ہیں وہی ادارے جو عوام کی بھلائی و فلاح کے لئے بنائے گئے وہی عوام پر قابض بن بیٹھے ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔یہ کیسا ملک ہے جہاں ریاستی ملازم خود کو مالک سمجھتے ہیں اور عوام کو غلام۔کسی قانون کی کوئی گرفت نہیں گرفت ہے تو غنڈہ گردوں کی ،گرفت ہے تو سیاستدانوں، جاگیرداروں ،بزنس ٹائیکونوں،امراء اور بڑے افسروں کی ۔یہ سب قانون سے بالاتر ہیں ان کے لئے کوئی قانون نہیں اور نہ ہی کوئی قانونی پاسداری اور یہ سب قانونی گرفت کی آڑ میں غنڈہ گردی کے کھیل رچاتے ہیں۔عام معصوم لوگوں کو جعلی مقابلوں میں مارنا ان کا معمول ہے اور یہ برسوں سے ہوتا آ رہا ہے اور یہ تب تک ہوتا رہے گا، جب تک قانون کے رکھوالے بھی قانون کی پاسداری نہیں کرتے اور قانونی گرفت کی آڑ میں اذیت ناک جعلی پولیس مقابلوں کے کھیل کو ترک نہیں کرتے ۔اگر عوام کے جان ومال کا تحفظ ہی نہیں تو پھر کیا فائدہ ملک کا۔قائد کے بنائے ملک کو انصاف و قانون کے راہ پر چلانا ہے نہ کے قانون کی آڑ میں چھپے مفادات کے متلاشیوں کی راہ میں جو دشمن کے ایجنڈے کو فروغ دیں اور دشمن کو فائدہ پہنچائیں۔میں چیف جسٹس کا شکر گزار ہوں کہ وہ ایسے واقعات پر از خود نوٹسز لے رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ حکومت و دوسرے ادارے بھی اپنے ہونے کا ثبوت دیں گے۔اپنے کام کو قانون و آئین کے مطابق سرانجام دیں گے۔جب تمام ادارے اپنے اختیارات کا درست استعمال کریں گے تو انتشار و افراتفری کو شکست کا سامنا ہوگا اورجلد پاکستان اپنے اندرونی معاملات کو نمٹا لے گا۔نئے سال میں نئے عزم و نیک خیالات کو جنم دیجئے۔