قانون کا قانون سے تصادم اور وکلاء برادری کا ردعمل

Lawyers And Police

Lawyers And Police

تحریر: محمد صدیق پرہار
سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں میونسپل ایڈمنسٹریشن کے خلاف مظاہرے کے دوران وکلاء مظاہرین کی ایس ایچ اوشہزاد وڑائچ سے تلخ کلامی پرپولیس کی جانب سے مظاہرین کومنتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے استعمال اور اندھادھند فائرنگ کے نتیجہ میں صدر تحصیل بار ڈسکہ رانا خالدعباس اور دیگر وکیل شدید زخمی ہوگئے۔ صدربارڈسکہ ہسپتال میں جبکہ وکیل عرفان چوہان گوجرانوالہ ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔واقعہ کے بعد وکلاء برادری نے عدالتی امورکامکمل بائیکاٹ کردیا۔تھانہ ڈسکہ کاگھیرائوکرکے شدیداحتجا ج کیا۔اس دوران پولیس نے ایک بارپھروکلاء مظاہرین پرفائرنگ کردی۔جس سے وکیل سمیع اللہ زخمی ہوگئے۔ واقعہ کے خلاف وکلاء برادری نے شدیداحتجاج کیاسول ہسپتال روڈکومکمل طورپربندکرکے پولیس کے خلاف شدیدنعرے بازی کی۔اخباری رپورٹس کے مطابق وکلاء گذشتہ تین ماہ سے میونسپل ایڈمنسٹریشن کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

احتجاج کے بعدپرامن طورپرمنتشرہوجاتے تھے۔تاہم اس باروکلاء اورپولیس میں تصادم کے بعدحالات کشیدہ ہوگئے۔پولیس فائرنگ کے خلاف سیالکوٹ میں مشتعل افرادنے ڈی ایس پی کے دفترکوآگ لگادی۔لاہورمیں وکلاء تنظیموںکے مشترکہ اجلاس میں ہڑتال ، عدالتی امورکابائیکاٹ کرنے ،تین روزہ سوگ منانے ،بازئوںپرسیاہ پٹیاںباندھ کراحتجاج کرنے ،بارایسوسی ایشنزکے دفاترپرسیاہ پرچم لہرانے کااعلان کیاگیا۔وکلاء نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے ذریعہ واقعہ کی انکوائری کرانے کامطالبہ کیا اورساتھ ہی پولیس کاکوئی نمائندہ شامل نہ ہونے کی شرط بھی عائدکردی۔واقعہ کی اطلاع پرپنجاب کے مختلف شہروںمیں وکلاء سڑکوںپرنکل آئے اورشدیداحتجاج کیا۔لاہورمیں وکلاء نے فیصل چوک تک احتجاجی ریلی نکالی ۔ا س دوران وکلاء کی خاردارتاریں اوربیریئرہٹاتے ہوئے اپنجاب اسمبلی کے اندرجانے کی کوشش کواسمبلی کی سیکیورٹی اورپولیس نے ناکام بنادیا۔مشتعل وکلاء نے اسمبلی کے مرکزی دروازے پرسیکیورٹی اہلکاروںکی کرسیاںاورمیزیں اٹھاکرپھینک دیں واک تھروگیٹ کوبھی ٹھوکریں ماریں۔دوسرے روزمقتول وکلاء کی نمازجناہ اداکرنے کے بعدوکلاء نے لاہورہائی کورٹ سے فیصل چوک تک ریلی نکالی۔

بعض وکلاء پنجاب اسمبلی گیٹ کے ستونوںپرچڑھ گئے اوربعض وکلاء نے وہاں وزراء کے بیززسمیت سیکیورٹی شیڈکوآگ لگادی۔پولیس کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔وکلاء کی بڑی تعدادنے فیصل چوک میں ٹائروںکوآگ لگاکرٹریفک بلاک کردی۔بعض وکلاء پنجاب اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے میںکامیاب نہ ہوسکے۔تمام دروازے بندہونے کی وجہ سے اسمبلی کاعملہ اسمبلی میں محبوس ہوکررہ گیا۔ریلی سے قبل صدرہائی کورٹ بارپیرمسعوداحمدچشتی کی زیرصدارت لاہورہائی کورٹ باراورپنجاب بارکونسل کے مشترکہ اجلاس میں وکلاء کوپرامن رہنے اورقانون ہاتھ میںنہ لینے کی ہدایت کی گئی۔اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ سانحہ ڈسکہ کے ملزمان کوکیفرکردارتک پہنچایاجائے وگرنہ حالات کی ذمہ داری پنجاب حکومت اورآئی جی پنجاب پرہوگی۔وکلاء کی طرف سے کمشنرلاہورڈویژن عبداللہ سنبل کی گاڑی پرحملہ کرکے شیشے اورنمبرپلیٹ توڑدی گئی۔گوجرانوالہ سیشن کورٹ کے باہروکلاء نے احتجاج کرتے ہوئے پولیس کی گاڑی کے شیشے توڑدیے۔وکلاء نے مظاہرہ کرتے ہوئے جی ٹی روڈبلاک کردیامقامی ہسپتال میں موجودپولیس اہلکاروںکوتشددکانشانہ بنایاایلیٹ فورس کے اہلکاراپنی گاڑی چھوڑ کرفرارہوگئے۔سیالکوٹ میں مشتعل وکلاء نے ہسپتال میں ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے کھڑکیوں کے شیشے توڑدیے۔

Muhammad Anwar Khan Kasi

Muhammad Anwar Khan Kasi

سانحہ ڈسکہ کے حوالے سے منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں اسلام آبادہائی کورٹ بارایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ محمدانورخان کاسی نے کہا کہ سانحہ ڈسکہ کھلی دہشت گردی اوربربریت ہے۔دکھ کی اس گھڑی میں ججزوکلاء برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔دہشت گردی کے قوانین مزیدسخت ہونے چاہییں۔وزیراعظم میاں محمدنوازشریف نے ڈسکہ میں امن وامان کی صورت حال پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی ۔ وزیراعظم نے متعلقہ حکام کواقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے اورکہاہے کہ سرکاری املاک کونقصان نہ پہنچایاجائے۔یہ عمل ناقابل برداشت ہے ۔ کسی کوقانون ہاتھ لینے کی اجازت نہ دی جائے۔گورنرپنجاب رفیق رجوانہ نے ڈسکہ واقعہ کی شدیدمذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔وزیراعلیٰ شہبازشریف نے ڈسکہ واقعہ کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینے کافیصلہ کیا ہے۔جس میں پولیس ، آئی ایس آئی اورآئی بی کے نمائندے شامل ہوں گے۔ جبکہ وکلاء یہ شرط عائدکرچکے ہیں کہ تحقیقاتی ٹیم میں پولیس کاکوئی نمائندہ شامل نہ ہو۔

انہوں نے واقعہ کافوری نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیاترجمان پنجاب حکومت کے مطابق ڈسکہ واقعہ کی انکوائری کے لیے وزیراعلیٰ نے ٹی ایم اورڈسکہ ملک طارق ضیاء کومعطل اوراے سی چوہدری ذولفقاراحمدبھون کواوایس ڈی بنانے کے احکامات جاری کردیے۔جبکہ آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ واقعہ کے ذمہ داروںکے خلاف قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے۔انہوںنے انتظامیہ کوہدایت کی کہ تصادم کے نتیجے میں زخمی ہونے والوںکوعلاج معالجہ کی بہترین سہولتیں فراہم کی جائیں۔ انہوںنے کہا ڈسکہ واقعہ افسوس ناک ہے غمزدہ خاندانوںکوہرقیمت پرانصاف فراہم کریں گے۔حکومت پنجاب کی طرف سے چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کوبھیجی گئی درخواست میںاستدعاکی گئی تھی کہ جوڈیشل انکوائری کے لیے عدالت عالیہ کے کسی ایک جج کو نامزد کیا جائے۔

وکلاء نے ا س واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کے اقدام کو مسترد کرد یاتھا۔جبکہ انسداددہشت گردی ایکٹ اورتعزیرات پاکستان کے تحت ملزموںکے خلاف تھانہ سٹی ڈسکہ میں ایف آئی آربھی درج ہوچکی ہے۔جبکہ انکوائری کے لیے تشکیل دی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے بھی کارروائی شروع کردی ہے ان حالات کے پیش نظرپنجاب حکومت نے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی درخواست واپس لے لی ہے۔چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ جسٹس منظوراحمدملک نے پولیس کی مبینہ فائرنگ سے صدرتحصیل بارایسوسی ایشن راناخالدعباس اوروکیل عرفان چوہان کی شہادت ،جہانزیب ساہی، ضیاء اللہ اوردیگروکلاء کے زخمی ہونے کے واقعہ کانوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کوہدایت کی کہ ڈسکہ میںفوری طورپررینجرزتعینات کی جائے۔فاضل چیف جسٹس نے جنرل سیکرٹری ڈسکہ بار،سیالکوٹ باراورگوجرانوالہ بارکے صدورسے رابطہ کرکے مذکورہ واقعہ سے متعلق معلومات لیں۔فاضل چیف جسٹس نے ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج سیالکوٹ سے رپورٹ طلب کرکے ڈسکہ پہنچنے کی ہدایت کی جس پروہ فوری طورپرڈسکہ پہنچے اور حالات کوقابومیں کرنے کے لیے وکلاء راہنمائوں سے رابطہ کیا۔فاضل چیف جسٹس نے ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج گوجرانوالہ کوبھی ہدایت کی کہ وہ وکلاء راہنمائوں کے ساتھ رابطہ کریں اورفاضل چیف جسٹس کولمحہ بہ لمحہ کی رپورٹ دیں۔

Mio Hosptal

Mio Hosptal

بعدازاں فاضل چیف جسٹس نے جسٹس سردارطارق مسعود، مسٹرجسٹس سیّد منصورعلی شاہ کے ہمراہ میوہسپتال لاہور کادورہ کیااوروہاںزیرعلاج زخمی وکیل کی عیادت کی۔قبل ازیں فاضل چیف جسٹس سے ملاقات میں وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل اعظم نذیرتارڑسمیت دیگروکلاء عہدیداروںنے درخواست کی فاضل چیف جسٹس مذکورہ واقعہ کی خودنگرانی کریں۔چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب خضرحیات گوندل اورآئی جی پنجاب مشتاق سکھیراسے رابطہ کرکے رپورٹ طلب کرتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی۔وزیرداخلہ پنجاب کرنل (ر) شجاع خانزادہ نے کہا ہے کہ ڈسکہ سانحہ ایک پولیس آفیسرکاذاتی فعل ہے۔جس پربھرپورکارروائی کریں گے۔انہوں نے کہا وہ جاں بحق ہونے والے وکیلوں کے اہل خانہ کے غم میں برابرکے شریک ہیں۔واقعہ کے ذمہ داروںکوکیفرکردارتک پہنچاکردم لیں گے۔انہوںنے کہا کہ واقعہ کی انکوائری کے لیے جواینٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ صر ف ڈسکہ ہی نہیںلیہ میں بھی ایک اورواقعہ کی وجہ سے حالات کشیدہ ہو گئے۔ تاہم یہاں کسی فائرنگ کاواقعہ نہیں ہوا۔ ہوایوں کہ صدر ڈسڑکٹ بارایسوسی ایشن شیخ سیف اللہ سعیدوکلاء کے ایک وفدکے ہمراہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کلکٹر لیہ ڈاکٹر لبنیٰ نذیرسے ملاقات کے لیے ان کے دفترگئے تونائب قاصدمیڈم مصروف ہیں کہہ کرانہیں روک لیا۔

توقف کے بعدشیخ سیف اللہ سعیداوردیگراے ڈی سی کے چیمبرمیں چلے گئے۔تومبینہ طورپرایڈیشنل ڈسٹرکٹ کلکٹرلیہ نے صدرڈسٹرکٹ بارلیہ کوگیٹ آئوٹ کردیا۔ساتھی وکلاء کی ڈسٹرکٹ بارلیہ کوآگاہی پردرجنوں وکلاء نے ڈی سی اوآفس لیہ پہنچ کراے ڈی سی کے الفاظ کے خلاف شدیدترین احتجاج کیا۔بعدازاںمشتعل وکلاء نے ضلعی ریونیوآفیسرلیہ کے دفترمیں ڈاکٹرلبنیٰ نذیرکی موجودگی میں شدیداحتجاج شروع کردیا۔اس دوران کان پڑی آوازسنائی نہ دیتی تھی۔اس موقع پرسفیدکپڑوںمیں ملبوس اشخاص نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کلکٹرلیہ اوراے سی لیہ کے گن مینوںکوزدوکوب کرنے اورگھسیٹنے کی کوشش کی۔سینکڑوں وکلاء نے شیخ سیف اللہ سعیدکی سربراہی میں شدیددھوپ میں احتجاجی جلسہ کیا۔وکلاء کے احتجا ج کے دوران ضلعی جنرل سیکرٹری ایپکاساجدمحبوب ، صدرایپکایونٹ ڈی سی اوآفس لیہ ملک منصورالہٰی کی قیادت میں ڈی سی اوآفس لیہ کے کلرک ڈی سی اوآفس لیہ کے دفاترکومقفل کرکے ڈی سی اوآفس مین گیٹ سے باہراحتجاجی جلسہ کرنے والے وکلاء کے سامنے آگئے۔صورت حال کی کشیدگی کوبھانپتے ہوئے ایس ایچ اوسٹی لیہ وسیم اکبرلغاری سٹی پولیس اورایلیٹ فورس کی بھاری نفری کے ہمراہ وکلاء اورکلرکوں کے درمیان دیوار بنا کر کھڑے ہوگئے۔

اے ڈی سی لیہ کی جانب سے صدرڈسٹڑکٹ بارلیہ کے ساتھ روارکھے گئے نارواسلوک پرپیداہونے والے تنازعے میں افسران کی جانب سے آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن اورسینٹری ورکرزکی انقلابی ورکرزیونین کو ڈھال کے طورپراستعمال کرنے اورمقامی کمیونٹیزکوایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑاکرنے کے معاملہ میں وکلاء کی جانب سے شدیدردعمل سامنے آیاہے۔اب صلح کی کوششوںکاآغازہوچکا ہے۔ ایپکانے ہڑتال ختم کرکے دفتروںمیںکام شروع کردیا ہے۔ ڈسکہ واقعہ پروکلاء کونہ توپولیس پراعتمادہے اورنہ ہی جوڈیشل انکوائری پر۔ اس لیے انہوں انکوائری ٹیم میں پولیس کی موجودگی اورجوڈیشل کمیشن کومستردکردیا ہے۔انہیں صرف اورصرف جے آئی ٹی پرہی اعتمادہے۔ جس نے اپناکام بھی شروع کردیا ہے۔وکلاء اورپولیس دونوں فریقین کاکام قانون کی پاسداری کرنا اورکراناہے۔ ان میں سے ایک فریق عدالتوں میں ججوں اورسائلین کی قانونی معاونت کرتاہے۔جبکہ دوسرافریق ریاست میںقانون کی عملداری کویقینی بناتاہے۔

Daska

Daska

جرائم پیشہ افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانااس فریق کاکام ہے۔ اب یہ کہنا درست ہوگا کہ ڈسکہ میں قانون کے مقابلے میں قانون آگیا۔واقعہ کے حقایق توتحقیقات کے بعدہی سامنے آئیں گے۔ تاہم اخبارات کے ذریعے دستیاب معلومات کے مطابق اگرایک فریق کارویہ ٹھیک نہیں تھا تودوسرے فریق کے ردعمل کوبھی درست نہیں کہاجاسکتا۔ ہمیں توقانون کے بارے میں علم نہیں ۔ وکلاء ہی قانون کوسب سے بہترجانتے ہیں ۔وہ یہ بھی بہترجانتے ہیں کہ قانون کے تحت کس وقت کیاکرنا ہے۔وکلاء نے ڈسکہ واقعہ کے ردعمل میں جوکچھ کیا ہے ہوسکتا ہے قانون میں اس کی اجازت ہو۔ہمیں تواس بات پریقین نہیں آتا کہ وکلاء کوئی ایساکام کریں گے جس کی قانون میں اجازت نہ ہو۔جب وزیراعظم نوازشریف، گورنرپنجاب رفیق رجوانہ، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف ، چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ جسٹس منظوراحمدملک نے الگ الگ اس واقعہ کانوٹس لیا۔ فائرنگ کرنے والے ایس ایچ اوکوبھی گرفتارکرلیا۔جے آئی ٹی اورجوڈیشل انکوائری کافیصلہ بھی کرلیاگیا ۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے چیف سیکرٹری کوہدایت کردی کہ چیف جسٹس جوجوڈیشل انکوائری کے لیے خط لکھیں۔جوڈیشل انکوائری کافیصلہ وکلاء کے اعتراض پرواپس لے لیاگیا۔یوں احتجاج کرنا،سرکاری املاک کونذرآتش کرکے نقصان پہنچانا، تھانوں گھیرائوکرنا،پنجاب اسمبلی پردھاوابولناکسی طوربھی اخلاقی طور جائز رویہ نہیں کہاجاسکتا۔

اس بات کافیصلہ توتحقیقات کے بعد ہی ہوگا کہ کس نے قانون پرعمل کیااورکس نے قانون کوہاتھ میں لیا۔واقعہ کے بعد پنجاب حکومت، آئی جی پولیس پنجاب کووکلاء کی طرف سے مطالبات پیش کرکے کچھ دنوں کاوقت دیاجاتا ان دنوںمیں مطالبات نہ مانے جاتے یا واقعہ کی انکوائری کاآغازنہ ہوجاتا توپھروہ احتجاج کرتے ۔ توڑپھوڑاوراملاک کوپھربھی نقصان نہ پہنچاتے۔وکلاء اب چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ جسٹس منظوراحمدملک کی اس بات پرعمل کریں کہ وکلاء اب ہڑتال کے کلچرکوختم کریں ۔اس سے سائلین کانقصان ہوتاہے۔لیہ کے واقعہ میں پہلی بارانکشاف ہواکہ ایپکاحکومت کے خلاف ہی نہیں انتظامیہ کے حق میںبھی احتجاج کرسکتی ہے۔وکلاء کوڈسکہ واقعہ کے بعد ایسا لائحہ عمل اپناناچاہیے تھاجودیگرکمیونٹیوں کے لیے مثال بن جاتا۔اگروکلاء جیسا باشعورطبقہ بھی ایساردعمل دکھائے تو دیگر سوسائیٹیوں بارے کیاکہاجاسکتا ہے۔یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ اگروکلاء احتجاج پرآگئے ہیں تودیگر کمیونٹیوں کے بارے میں کیاکہاجاسکتا ہے۔آخری اطلاعات کے مطابق انسداددہشت گردی گوجرانوالہ کی خصوصی عدالت نے ملزم سابق انسپکٹر شہزاداکرم کابارہ روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا ہے۔وکلاء کواب احتجاج ختم کرکے سائلین کے قانونی مسائل پرتوجہ دینی چاہیے۔لیہ میں صدرڈسٹرکٹ بارلیہ بڑے پن کاثبوت دیں۔

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر: محمدصدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com