شریعت اور آئین

Constitution

Constitution

تحریر: ایم ایم علی
نبوت کے تیرھویں سال 16 ربیع الا ول جمعتہ المبارک کی صبح نبی کریمۖ یثرب میں داخل ہوئے جو مکہ سے گیارہ دن کے فاصلے پر واقع تھا۔نبی کریمۖ کی آمد کے بعد یثرب کو مدینتہ النبی کا نام دیدیا گیا اور اسی شہر مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔اسوقت مدینہ منورہ میں مختلف قبائل بستے تھے جن مین دو بڑے قبائل اوس اور خزرج تھے ۔جن کا آبائی وطن یمن تھا اور وہ بت پرست تھے اسکے علاوہ تین یہودی قبائل ،بنو نضیر ،بنو قریظہ اوربنو قینقاع بھی مدینہ میں رھائش پذیر تھے۔ اوس اور خزرج معاشرے میں امتیازی حیثیت کے حامل تھے لیکن معمولی باتوں پر ایک دوسرے کیخلاف بر سر پیکار ہو جاتے اور انکے درمیان جنگ وجدل اور خونریزی کئی سالوں جاری رہتی اگرچہ ان لڑائیوں میں کافی حد تک یہودی ساز شیں بھی کار فرما رہیں۔یثرب اور اس کے قرب وجوار کی آبادی تقریبا 10ہزار نفوس پر مشتمل تھی جس میں مسلم مہاجرین و انصار کی تعداد 400 کے لگ بھگ تھی۔

یہ نبی کریمۖ کی سیاسی بصیرت و عظمت کا کمال تھا کہ مسلمانوں کی اتنی محدود تعدادکے باوجود بغیر کسی کشت وخون کے یثرب پہ نہ صرف اپنی حکومت قائم کی بلکہ قبیلوں میں بٹے ہوئے معاشرے کو ا تحادو یگانگت اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسوں کو محبت و الفت کے ایسے رشتے میں باندھ دیا کہ انکے تمام نسلی و مذہبی امتیازات مٹ گئے اور وہ ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن کر رہنے لگے۔اس مثالی ریاست کے قیام میں میشاق مدینہ نے ایک اہم کردار ادا کیا، 47شقوں پر مشتمل مدینہ چارٹر (میثاق مدینہ)کائنات انسانی کا پہلا تحریری دستور سمجھا جاتا ہے۔

معروف یونانی مفکر ارسطو نے اپنی زندگی میں تین سو آئین جمع کئے تاکہ وہ یونانی ریاست کیلئے مثالی آئین ترتیب دے سکے لیکن وہ ایسا کرنے سے قاصر رھا لیکن نبی کریم ۖ کی سیاسی فہم و دور اندیشی کا یہ عالم تھا کہ آج سے چودہ سو برس پہلے ایک ایسی جامع آئینی دستاویز متعارف کرائی کہ جس نے نہ صرف تحفظ حقوق انسانی کو یقینی بنایا بلکہ ایک ایسا روڈ میپ دیدیا کہ آنیوالے ادوار میں 15 جون 1215کو منظوری پانیوالا میگنا کار ٹا ہو یا 10دسمبر 1948کو جاری ہونیوالا اقوام متحدہ کا ہیومن رائٹس چارٹر سب مدینہ چارٹر کے ہی عکاس دکھائی دیتے ہیں۔ بعد میں آنیوالے ادوار میں مختلف سیاسی مفکرین نے ریاست کے قیام کے حوالے سے مختلف نظریات پیش کئے۔ تھامس ہابس نے اپنی مشہور تصنیف لیو یا تھان ؛ میں ریاستی امور چلانے کیلئے ایک فرد کو اقتدار سو نپنے کا نظریہ پیش کیا اس نظریہ مطلق العنانیت کو ہدف تنفید بنایا گیا۔ جان لاک نے ھابس کے نظریہ کو رد کرتے ہوئے اپنی کتاب :آف سول گورنمنٹ : میں ریاست کی تشکیل میں آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ پر زور دے کر مدینہ چارٹر کی روایت کو ہی دہرایا۔

فرانسیسی مفکر روسو نے اپنی کتاب سوشل کنٹر یکٹ میں جدید ریاست کا تصور پیش کرتے ہوئے ارادہ عام کی بنیاد پر طے پانے والے ایک خیالی معاہدہ کا ذکر کیا ہے لیکن میثاق مدینہ خیالی نہیں بلکہ ایک حقیقی عمرانی معاہدہ ہے جو کہ ایک سو شل کنٹر یکٹ بھی ہے اور آئین بھی۔ یہاںتک کہ مغربی مفکرین بھی اسکی آفاقیت کے معترف دکھائی دیتے ہیں اور میور جیسا نقاد بھی یہ رائے دیتا ہے کہ اس معاہدے نے نہ صرف ایک عہد بلکہ تمام ادوار کیلئے نبی کریمۖ کو ایک عہد ساز شخصیت بنا دیا ۔مدینہ چارٹر ایک ایسا عظیم عمرانی معائدہ ہے کہ جو نہ صرف استحکام ریاست بلکہ ریاست میں امن و انصاف ،مساوات ، مذہبی آذادی اور رفاہ عامہ کے زریںاصولوں پر مبنی دکھائی دیتا ہے اور یہی وہ اہم ستون ہیںجو کسی بھی ریاست کو مضبوط بنیادیں فراہم کرتے ہیں اور یہی وہ بنیادی معیارات ہیں جن پر ر یاستی قوانین کے صیحح و موثر ہونے کو پرکھا جاسکتا ہے۔
قارئین کرام! میں اس غیر متعلق بحث میں نہیں الجھنا چاہتا کہ ہمارے ملک کا آئین شرعی ہے یا غیر شرعی کیونکہ نہ تو میں مذہب پر اتھارٹی ہوں اور نہ ہی اعلی قانون دان۔ میراسوال تو ایک عام آدمی کا سوال ہے کہ کیا ہمارے ملک کا آئین امن و امان، مذہبی آذادی ،جان ومال اور عزت کی حفاطت جیسے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے ؟ کیا ہمار ے ملک کا آئین بلا امتیاز انصاف مہیا کرنے اورمساویانہ حقوق کی فراہمی میں کامیاب ثابت ہوا ہے ؟اگر ان سوالات کا جواب نہیں ہے تو پھر میں یہ اعتراض اٹھانے میں حق بجانب ہوں کہ آئین میں کوئی تو سقم موجود ہے ،اگر کوئی یہ کہے کہ آئین تو موجود ہے لیکن اسکا نفاذ نہیں ہو رہاتو میرا عاجزانہ سوال ہوگا کہ وہ افراد ادارے یا قوتیں جو نفاذ آئین کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے مرتکب ہیں اور ایسا کرنے کے با وجود ناقابل گرفت ٹھہر تے ہیں تو ایسا کیونکر ہے ، یہ کس کی خامی ہے اور اس کی ذمہ داری کس پرعائد ہوگی ؟ ہمارے ملک میں جائیداد کے مقدمات برسوں چلتے رہتے ہیں۔

مدعی مقدمہ کی زندگی ختم ہو جاتی ہے لیکن دیوانی مقدمہ ختم نہیں ہوپاتا یہاں تک کے قتل جیسے سنگین جرائم کے مقدمات کو اس قدر الجھا دیا جاتا ہے کہ فیصلے کی امید میں مدعیان مقدمہ کی سانسوں کا ربط ٹوٹ جاتا ہے لیکن مجرم کو سزا نہیں ہو پاتی ۔ آخر آئین میں گنجائش ہے تو ماہرین قانون اس گنجائش کا فائدہ اٹھا کر مقدمات کو اس قدر طویل کر دیتے ہیں کہ حصول انصاف کی خواہش مایوسیوں تلے دب کے دم توڑ دیتی ہے۔ولیم گلیڈسٹون نے کہا تھا کہ انصاف میں تاخیر فراہمی انصاف سے انکار کے مترادف ہے تو پھر یہ کیسا آئین ہے کہ جو مجرموں کو بچ نکلنے کے لئے تاخیر کے مواقع بہم پنچاتا ہے لیکن مظلوموں کی داد رسی کیلئے بے بس دکھائی دیتا ہے۔11 اگست1947کو بانی پاکستان محمدعلی جناح نے ایک آذاد ریاست کو چلانے کیلئے جو اقدامات اٹھانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا اس میں امن وامان کو پہلی ترجیح قرار دیا تھااور اقر با پروری و رشوت کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے انصاف و مساوات اور مذہبی آزادی پر مبنی معاشرے کی تشکیل کو اپنی منزل قرار دیا تھا لیکن ہمارے قانون ساز ادارے نہ تو مدینہ چارٹر جیسی عظیم دستاویز کی روشنی میں قوانین ترتیب دے سکے اور نہ ہی ہمارے سیاسی و ریاستی ادارے قائداعظم کے آئینی ویژن کو عملی جامہ پہنا سکے۔آج سے چودہ سو برس قبل نبی کریمۖ نے مدینہ چارٹر کے قوانین ترتیب دیتے ہوئے بت پرستوں، عسیائیوں اور یہودیوں کو مساویانہ حقوق دے کر اس حقیقت کو آشکار کر دیا تھا کہ قوانین کا مقصد فراہمی انصاف ،مساوات اور تحفظ حقوق انسانی ہے اور یہی وہ بنیادی اصول ہے جس سے حسن معاشرت اور استحکام ریاست جنم لیتے ہیں۔

لیکن ہم ساٹھ سال گزرنے کے باوجود ایسے قوانین ترتیب دینے اور ایسا نظام متعارف کرانے سے قاصر ہیں جسکے تحت شاہ گدا ایک ہی کٹہرے میں کھڑے ہوں، جہاں مسجد و کلیسا دونوں کو احترام کی نظرسے دیکھاجا ے، جہاں چادر اور چار دیواری کا تحفظ ہو اور جہاں بلا تخصیص و عقائدو مذہب، رنگ و نسل اور معاشرتی مقام سب کو مساویانہ حقوق حاصل ہوں۔ آخر میں مہذب دنیا سے میر ا ایک سوال کہ ایسا کوئی بھی دستور جو حسن معاشرت کے بنیادی اصول انصاف و مساوات کو فروغ دینے میں ممدومعاون ثابت نہیں ہوتا اور مصلحتوں کا شکار ہو کر صاحبان دولت واقتدار کیلئے ایک ہتھیار کی صورت اختیار کر لیتا ہے جسے وہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے حقوق غصب کرنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں تو کیا ایسے دستورر کو آئینی حثیت حاصل ہونی چاہیے؟ ایسے ہی دستور کے متعلق ا نقلابی شاعر حبیب جالب نے عوامی جذبات کو زبان بخشتے ہوئے کہا تھا کہ

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے چند لوگوں کی خوشیوں کو لیکر چلے
وہ جوسائے میں ہر مصلحت کے پلے ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

MM ALI

MM ALI

تحریر: ایم ایم علی