ہم نہیں جانتے کہ آئین کیا ہے اور قانون کیا۔ ہمیں علم ہے تو بَس اتنا کہ جس آگ اور خون کے دریا سے یہ خطّہ اُبھرا، اُس کے لیے ہم نے خالق و مالکِ کائنات سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم اِسے اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے اور اسلام تو وہ دینِ مبیں ہے جس میں ”دَرِ توبہ” ہر وقت کھُلا رہتا ہے، حتیٰ کہ دَمِ واپسیں تک۔ یہ کیسا ملک ہے جسے ہم اسلام کی تجربہ گاہ میں ڈھالنے کی بجائے ایسے قوانین لاگو کر رہے ہیں جن کی دین میں کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔ سپریم کورٹ میں نااہلی کی مدت تعین کرنے کا محفوظ فیصلہ سنا دیا گیا اور لکھ دیا گیا کہ آرٹیکل 62 وَن ۔ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوگی۔ فیصلے میں یہ بھی لکھ دیا گیا کہ اِس آرٹیکل کے تحت نااہل ہونے والوں کے سدھرنے کا کوئی امکان نہیں، اِس لیے نااہلی تاحیات ہوگی۔ سمجھ سے بالاتَر کہ ہماری انتہائی محترم سپریم کورٹ یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ سدھرنے کا کوئی امکان نہیں۔ کیا سپریم کورٹ کو کَشف ہوا یا نعوذ باللہ اُس پر وحی نازل ہوئی؟۔ حیرت ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت تو جرم خواہ کوئی بھی ہو اور کتنا ہی سنگین، نااہلی کی مدت پانچ سال ہے لیکن جھوٹ بولنے کی سزا تاحیات کیونکہ یہ طے کر لیا گیا کہ جھوٹ بولنے والا شخص کبھی سچ نہیں بول سکتا اِس لیے اُس پر توبہ کے دروازے بند۔ یہ فیصلہ زمین پر اللہ کی نیابت کے دعویداروں کا تو ہو سکتا ہے، اُس رحیم وکریم کا ہرگز نہیں جو اپنے بندوں کے لیے لامحدود حد تک مشفق ومہربان ہے۔شیخ رشید نے جس ”جوڈیشل مارشل لائ” کی پیشین گوئی کی وہ 13 اپریل کے فیصلے نے سچ ثابت کر دی۔ حیرت ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بارے میں جتنی بھی پیشین گوئیاں کی جا رہی ہیں، سب سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ عمران خاں اور شیخ رشید کے مُنہ سے نکلے الفاظ تو گویا صحیفہ آسمانی ہیںجن سے سَرِ مو انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ اِس لیے اب تو ہمیں بھی یقین ہوچلا کہ جیل میاں نواز شریف کا انتظار کر رہی ہے کیونکہ خان اور شیخ کے ”ارشاداتِ عالیہ” تو یہی ہیں اور پیشین گوئی بھی۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ تو آگیالیکن ہمیں یقین کہ یہ فیصلہ تاریخ کا متنازع ترین فیصلہ قرار دیا جائے گا، ”اقامہ نااہلی” فیصلے سے بھی زیادہ متنازع۔ یہ فیصلہ متفقہ ہے اور کسی بھی جج نے اِس سے اختلاف نہیں کیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ ”گھڑاگھڑایا” ہے اور حالات خواہ کچھ بھی ہوتے، فیصلہ بہرحال یہی آنا تھا۔ اگر یہ فیصلہ متفقہ نہ ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اِس فیصلے میں اختلافی نوٹس بھی لکھے گئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کچھ ججز صاحبان کے نزدیک یہ فیصلہ درست نہیں لیکن جب ایسے متنازع ترین فیصلے پر بنچ کے سبھی ممبران متفق ہوں تو پھر لامحالہ یہی سوچ اُبھرتی ہے کہ ”ایسا تو ہونا ہی تھا”۔
یہ سارا کھیل جس شخص کو سیاست سے ”آؤٹ” کرنے کے لیے رچایا گیا، سوال یہ ہے کہ کیا اُس پر پارلیمنٹ کے دروازے بند کرنے سے وہ ”دِلوں کی پارلیمنٹ” سے بھی ”آؤٹ” ہو جائے گا؟۔ جب ہم تاریخِ پاکستان پر نگاہ دَوڑاتے ہیں تو ہمیں بالا سوال کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ ضیاء الحق نے ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا لیکن بھٹو آج بھی بہت سے دلوں کی دھڑکنوں میں زندہ ہے۔ ضیاء الحق ہی کے دَور میں پیپلزپارٹی کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن جب بینظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو اُن کا ایسا فقید المثال استقبال ہوا جس کی تاریخِ پاکستان میں مثال نہیں ملتی۔ تب حبیب جالب نے کہا ”ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے”۔ آمر مشرف کے دَور میں این آر او ہوا اور بینظیر وطن واپس آئیں تو اُن کا تاریخی استقبال آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ میاں نوازشریف کا بدترین دشمن پرویزمشرف ہمہ مقتدر تھا، اُس کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا تھا۔ وہ اکثر مُکّے لہرا لہرا کر اپنی اندھی طاقت کا اظہار کیا کرتا تھا لیکن جب میاں نوازشریف اور اُن کا خاندان عام انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے وطن لوٹے تو قوم نے اُنہیں سَر آنکھوں پر بٹھایا اور انتخابات میں نوازلیگ ملک کی دوسری بڑی جماعت بن کر اُبھری اور پنجاب میں حقِ حکمرانی بھی اُسی کے حصّے میں آئی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی مقبولیت کو منفی ہتھکنڈوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں تو وہ جماعت مزید مقبول ہو جاتی ہے۔ ہمیں آج بھی یقین ہے کہ نوازلیگ کے خلاف آنے والے فیصلے میاں نوازشریف کی مقبولیت میں کمی کی بجائے اضافہ ہی کر رہے ہیںجس کی واضح مثالیں جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت اور ضمنی انتخابات میں نوازلیگ کی محیرالعقول کامیابیاں ہیں۔
میاں نوازشریف کو 28 جولائی 2017ء کو ایک متنازع فیصلے کے زور پر نااہل قرار دے دیا گیا۔ اُنہوں نے عدالتی فیصلے پر فوری عمل درآمد تو کیا لیکن فیصلہ قبول نہیں کیا۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ اسلام آباد سے لاہور تک کا چار گھنٹوں کا فاصلہ چار دنوں میں طے ہوا اور تمام راستے میں عوام کا جمِ غفیر میاں صاحب کے لیے چشم براہ رہا۔ اگر میاں صاحب ایوانِ وزیرِاعظم چھوڑ کر خاموشی سے گھر چلے آتے تو شاید آج نوازلیگ کی مقبولیت میں بہت بڑا ”ڈینٹ” پڑ چکا ہوتالیکن میاںصاحب کا بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور جانے کا فیصلہ درست اور بَروقت ثابت ہوا اور آج پورا پاکستان ”ووٹ کو عزت دو” کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ الیکشن کمیشن 2017ء اصلاحات بِل کے ذریعے میاں صاحب نوازلیگ کے صدر منتخب ہوئے لیکن سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دے دیا کہ ایک نااہل شخص کسی سیاسی جماعت کی صدارت کے اہل نہیں ہو سکتا۔ فیصلے میں یہ بھی کہہ دیا گیا کہ میاں نوازشریف کے نااہلی کے بعد نوازلیگ کے صدر کے طور پر کیے گئے تمام فیصلے کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں۔ اِس فیصلے کی پاداش میں نوازلیگ کے سینٹ کے تمام اُمیدوار آزاد قرار پائے۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ سینٹ کے انتخابات جیتنے کے بعد جب منتخب سینیٹرز نے الیکشن کمیشن میں یہ درخواست دائر کی کہ وہ نون لیگ میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو الیکشن کمیشن نے صاف انکار کر تے ہوئے کہہ دیا کہ وہ ”آزاد” ہی رہیں گے۔
میاں نوازشریف سے نوازلیگ کی صدارت تو چھِن گئی لیکن وہ اپنی جماعت کے ”رَہبر” بن کر سامنے آگئے۔ اب دنیا کی کوئی عدالت اُن سے ”حقِ رَہبری” نہیں چھین سکتی کیونکہ یہ عہدہ انتخاب سے نہیں دلوں کو مسخر کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ آج بھی صورتِ حال یہ ہے کہ بھلے میاں صاحب پر ہمیشہ کے لیے پارلیمنٹ کے دروازے بند کر دیئے گئے لیکن اُن کی مقبولیت پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ وہ ہر نئے سورج مقبول سے مقبول تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس لیے ہمیں شک ہے کہ عام انتخابات ہوتے بھی ہیں یا نہیںکیونکہ اب تو یہ عیاں ہوتا چلا جا رہا ہے کہ منصوبہ سازوں کو نوازلیگ کی حکومت کسی بھی صورت میں قبول نہیں اور وہ یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ اگر انتخابات ہوئے تو اکثریت بہرحال نوازلیگ ہی کی ہو گی۔