تحریر : وقار انساء قائد اعظم محمد علی جناح نے انتھک جدوجہد اور قربانیون کے بعد وطن عزیز کو حاصل کیا ایک آزاد اور خود مختار وطن اس خوشی کا تصور اس طرح کیا جا سکتا ہے جیسے کوئی بے گھر اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لے جہاں اپنی مرضی سے زندگی گزارے آہستہ آہستہ یہ ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف بڑھنے لگا وجہ حرص وہوس کی خطرناک بیماری جس مین مبتلا حکمران اس پر اپنا حق ایسے سمجھتے ہین جیسے یہ لوٹ کا مال ہو یہ کیسا نظام ہے جہاں کمزوروں کی کوئی شنوائی نہیں۔
طاقت ور کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا سکتا اگر کوئی ھمت کر لے تو اس کی آواز دبا دی جاتی ہے یا ان کی مثال نقار خانے مین طوطی کی آواز کی سی ہے با اثرورسوخ لوگوں کے لئے کوئی قانون نہیں مجرم دندناتے پھرتے ہین راہ چلتے مسافروں پر فائرنگ تو عام بات بن گئی ہے انسانی جان کی حثیت چیونٹی کی سی ہے
سنتے تھے قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں لیکن دیکھتے ہیں یہاں تو معذور قانون ہے ٹوٹے بازؤں اور ھاتھون والا جو امراء کو گرفت میں نہین لے سکتا ھمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے مجرم کا گناہ بے گناہ کے سر ڈال دیا جاتا ہے ! کیوں کے اس کی غربت اس کو مجرم ثابت کر دیتی ہے بے قصور ہوتے ہوئے بھی ڈنڈے کے زور پر اسے قصوار بنا دیا جاتا ہے۔
Abdul Qadir Gilani
عبدالقادر گیلانی کے واقعہ کو دیکھ لیں جس کے گارڈ نے راہ چلتے نوجوان کو گولی مار کر لقمہ اجل بنا دیا کیا ان غریبوں کی دادرسی ہو گی؟ کيا انہین انصاف ملے گا؟ یا ھمیشہ کی طرح یہ معاملہ بھی دب جائے گا کيا اس ملک مين غریبوں کی لاشین اسی طرح گرتی رہینگی ؟؟ اس ملک کی پولیس عوام کو بے گناہ تو گھير سکتی ھے ليکن اعلی عہدےداروں کی جواب طلبی نہین کر سکتی نہ ھی ان کی گاڑيان روکی جاتی ہيں ہر برا کام کرنے کی انہین کھلی چھٹی ہے کیونکہ اس محکمے کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے والوں نے اس محکمے کوکرپٹ بنا دیا ہے کچھ بڑے لوگون کی پشت پناہی نے ان کو نڈر بنا دیا مفت مل جائے تو کيا برا ہے کے مصداق وہ لوٹ کھسوٹ مين چار قدم ان سے بھی آگے ہيں۔
ریاست کے اداروں کی ناکامی کا سبب یہی ہے کہ اعلی عہدے داران کی زندگیوں پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا – ہونا تو یہ چاہیے کہ اعلی سطح سے اس کو ممکن بنا جائے افسران بالا جن باتوں کی پابندی خود کریں گے ان کو دوسروں کے سامنے مثال بنائیں تو ماتحت بھی اس پر چلین گے ليکن ملک کی دگرگوں حالت ديکھ کر انسان کف افسوس ہی مل کر رہ جاتا ہے جمہوریت کا جو پتلا کھڑا کيا جاتا ہے اسی کی ٹانگوں پر کاری ضربین لگا کر نام کی جمہوریت کولولی اور لنگڑی جمہوریت بنا ديا جاتا ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑی ھونے کے قابل نہيں ھوتی اور کیسے ہو بے چاری کے پاؤں جھوٹ کے ہيں وہ بھی سہارا نہیں دے سکتے۔
یہ لڑکھڑاتی جمہوریت سہارے ڈھونڈھتی ہی رہ جاتی ہے قانون کی آنکھین تو کالی پٹی سے کس کر باندھ دی گئی ہيں مبادہ کہیں وہ کچھ دیکھ ہی نہ لے اس طرح وہ بھی اندھا اور سہارے کا متلاشی ہے اس کی سماعت بھی متاثر ہے گويا پگھلا سيسہ اس کے کانون ميں ڈال دیا گيا مظلومون مجبورون اور غریبوں کی چيخیں قانون سننے سے قاصر ہو گيا رياست کی زبان کو قينچی سے کاٹ ديا گيا اس کو گونگا بنا ديا گيا اس ڈھانچے کا دل مفاد پرست لوگون نے نکال ليا اس لئے حکمران بے حس ہو گئے ان کی بے ضميری اور بے حسی عوام کی تکلیفوں کا ناسور بن گئی لوگ انصاف کو ترسنے لگے سچائی کہین دور منہ چھپا کر بیٹھ گئی غربت اور تنگ دستی نے یہاں ڈيرے جما لئے مہنگائی کا ازدھا پھن اٹھائے ڈسنے کو بے قرار نظر آیا۔
Democracy
اس ریاست کے ڈھانچے کو اس قابل بھی نہیں چھوڑا گیا کہ کچھ ٹھوکا ٹھاکی کر کے بہتر کر لیا جائے اس کا تمام نظام ہی بگڑا ھوا ہے پھر ضروری ہوا نیا پاکستان اس کی تشکيل نو کے لئے اٹھ کھڑا ہوا کپتان جس کے ھمراہ ہے اس ملک کی عوام اس ملک کو دیکھنے کے لئے جہان قانون اندھا گونگا اور بہرہ نہ ہو جہاں اپاہج جمہوریت نہ ہوجہاں غریبوں کو مفلسی کی چادر میں ہی نہ لپیٹ دیا جائے ایک خوشحال اور امن و سکون کا گہوارہ پاکستان ھم سب کا پاکستان۔