ایک شخص کیلئے قانون سازی عدالت کو آنکھیں دکھانے کے مترادف ہے: الیکشن ایکٹ کا تفصیلی فیصلہ

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ ایک شخص کے لیے کی گئی قانون سازی عدالت کو آنکھیں دکھانے کے مترادف ہے۔

سپریم کورٹ نے 21 فروری کو الیکشن ایکٹ 2017 سے متعلق کیس کے فیصلے میں نوازشریف کو پارٹی کی صدارت کے لیے نااہل قرار دیا تھا جب کہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آئین کی دفعہ 62، 63 پر پورا نہ اترنے والا نااہل شخص کسی سیاسی جماعت کی صدارت نہیں کرسکتا۔

جیونیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جو 51 صفحات پر مشتمل ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں ایسی کوئی شق نہیں تھی کہ نااہلی کے بعد کوئی پارٹی صدر رہ سکے، ایسے قانون کی غیرموجودگی میں نوازشریف پارٹی صدر بننے کے مجاز نہیں تھے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جوشخص بادشاہ بننے کےلیے نااہل ہو اسےکنگ میکربننے کے لیے فری ہینڈ نہیں دیاجاسکتا، ایک شخص کے لیے کی گئی قانون سازی عدالت کوآنکھیں دکھانے کے مترادف ہے، ایکٹ کی شق دو سو تین اور دو سو بتیس کوآئین سے ہٹ کر پڑھا جائےتو سیاسی جماعتوں کو ریموٹ سےچلانے کے دروازے کھلیں گے، اس سے مقننہ کو ایسے لوگ کنٹرول کریں گے جو آئین کے تحت پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن سکتے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہےکہ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، (ن) لیگ نے قومی اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر حکومت قائم کی اور نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر تھے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہےکہ 3 اپریل 2016 کو آئی سی آئی جے کی طرف سے پاناما کیس سامنے آیا اور اس سے متعلق دنیا بھر کے اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں، دنیا کے مختلف ملکوں کی شخصیات کی آف شور کمپنیاں سامنے آئیں، آف شور کمپنیوں کے حوالے سے اس وقت کے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے بچوں کے نام بھی سامنے آئے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں پاناما لیکس کی وجہ سے کئی عالمی رہنماؤں نے استعفے دیئے، نواز شریف نے قوم سے خطاب اور پارلیمنٹ کے اندر مختلف وضاحتیں پیش کیں، متضاد بیانات کی وجہ سے نواز شریف لوگوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق کچھ لوگ پٹیشن لے کر سپریم کورٹ میں آئے، اس پر 5 رکنی لارجر بینچ نے 20 اپریل 2017 کو ایک فیصلہ دیا جس میں 2 ججوں نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہےکہ 20 اپریل کے فیصلے میں 3ججز نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا جس نے 60 دنوں کے اندر اپنی رپورٹ پیش کی اور رپورٹ کی بنیاد پر نواز شریف کو 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا گیا۔

فیصلے کے مطابق اس عرصے کے دوران نواز شریف (ن) لیگ کے پارٹی صدر رہے لیکن نااہلی کے بعد نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نہیں رہ سکتے تھے۔

واضح رہے کہ نواز شریف کی بطور پارٹی صدر نااہلی کے بعد (ن) لیگ شہبازشریف کو قائم مقام پارٹی صدر منتخب کرچکی ہے جب کہ میاں نوازشریف کو تاحیات قائد بنایا گیا ہے۔