پچھلے دنوں قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت چئیرمیں قائمہ کمیٹی ایم این اے کمالیہ جناب ریاض فتیانہ نے کی۔ پہلے اجلاس کے موقع پر ایک بہت ہی اچھی روایت کا آغاز قائمہ کمیٹی کے چئیرمین جناب ریاض فتیانہ کی طرف سے دیکھا گیا کہ اُنہوں نے تمام ممبران کو پھولوں کے گلدستے پیش کئیے اور مل جُل کر اس ملک میں قانون، انصاف اور آئین کی سربلندی کے لئیے کام کرنے کا اعادہ بھی کیا۔
قائمہ کمیٹی کے ممبران میں مُسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر جناب شہباز شریف اور سابق وزیرریلوے جناب سعد رفیق بھی شامل تھے۔ ان دو صاحبان کو بھی جب باقی دوسرے ممبران کی طرح سے گرمجوشی سے خوش آمدید کہا گیا اور پھولوں کا گلدستہ پیش کیا گیا تو وہ تصویریں نہ صرف ملکی الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بہت ہی وائرل ہوئیں۔ تحریک انصاف کے کارکنان کی طرف سے ایک بے منطق اور بچگانہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ دیکھیں جناب یہ ریاض فتیانہ صاحب کیا کررہے ہیں؟ یہ تو چوروں کو پھولوں کے گلدستے پیش کررہے ہیں۔ جب ہماری پارٹی کے لوگ ہی ان لوگوں کو پھولوں کے گلدستے پیش کریں گے تو یہ کیسی جنگ ہے جو پھولوں کے گلدستے پیش کرکے لڑی جارہی ہے۔ غرض جتنے مونہہ اُتنی باتیں اور بغیر کسی مضبوط دلیل کے ان پھولوں کے گلدستے پیش کرنے پر تنقید کی گئی۔
اب حقیقت یہ ہے کہ یہ جو قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف ہے اس کا کام کیا ہے؟ پہلے تو اس بات کو اچھی طرح سے سمجھنا ہوگا کہ یہ قائمہ کمیٹی ہر قسم کی قانونی اصلاحات کو اسمبلی میں پیش کرے گی اورہر قسم کے نئے قانون اور پُرانے موجود قوانین میں ترامیم کے لئیے اس کمیٹی اور اسکے ممبران کا متفق ہونا بہت ضروری ہے۔ اسی قائمہ کمیٹی کی سفارشات پر قانونی مسودے اسمبلی میں بحث کے لئیے پیش کئیے جائیں گے پھر اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ سینٹ میں بھیجے جائیں گے۔
اب ایک قانون کو پاس کروانے کے لئیے یہ بہت ضروری ہے کہ حکومتی پارٹی کو دوتہائی اکثریت حاصل ہو جیسا کہ پچھلے دور میں نواز شریف حکومت کو حاصل تھی۔ اگر حکومتی پارٹی کے پاس دوتہائی اکثریت موجود نہیں ہے تو پھر حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا اور اُن کی مدد کے بغیر کسی بھی قسم کا قانون اسمبلی سے کسی بھی صورت پاس نہیں ہوسکتا۔
ریاض فتیانہ صاحب کی فہم وفراست کی داد دینی چاہیے کہ اُنہوں نے اپوزیشن لیڈر کو ہی قائمہ کمیٹی برائے انصاف میں شامل کرلیا تاکہ یہ کمیٹی جب بھی کسی نئے قانونی مسودے کو پیش کرے تو حکومتی اور اپوزیشن بنچ اُسے فوری طور پر منظور کرکے سینٹ میں منظوری کے لئیے بھیج دیں۔ اب سینٹ میں بھی اپوزیشن کی اکثریت ہیاس لئیے تحریک انصاف کی حکومت کو وہاں پر بھی اپوزیشن کا تعاون درکار ہے۔ یا تو تحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی اور سینٹ کے ایوان میں دوتہائی اکثریت حاصل ہو پھر تو کہا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کی ہمیں کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ اکثریت اُسے حاصل نہیں ہے اس لئیے نہ چاہتے ہوئے بھی اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا حکومت کی انتہائی مجبوری ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ آخر کونسی اصلاحات ہیں جو تحریک انصاف کرنا چاہتی ہے؟ اس کے لئیے آپ کو تحریک انصاف کے انتخابی منشور سنہہ دوہزار اٹھارہ کو پڑھنا ہوگا کہ جس کے پہلے پیراگراف میں ہی لکھا ہوا ہے کہ ” تحریک انصاف کی فکری اساس سیاست برائے سیاست نہیں بلکہ سیاست برائے خدمت ہے اور ہم اس عزم کے ساتھ میدان عمل میں گزشتہ تین دہائیوں سے سرگرم عمل ہیں تاکہ ہم ایسی فلاحی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکیں جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔ بے عیب نظام عدل ہی وہ بنیاد ہے جس پر وہ قوم تخلیق ہوسکتی ہے جہاں شہریوں کو صحت سے لیکر تعلیم اور جان ومال کے تحفظ تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں مساوی مواقع میسر ہوں۔ اور یہی وہ میزان عدل ہے جو خواتین، اقلیتوں، معذوروں اور مجبوروں کو اہل جبر کے ہاتھوں ہونے والے استحصال و امتیاز سے محفوظ رکھتی ہے۔”
تحریک انصاف نے اپنے منشور میں سب سے پہلے عدل و انصاف پر بات کی ہے۔ اب اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لئیے پولیس کے محکمہ میں اصلاحات کرنی ہیں۔ عدلیہ کے سٹرکچر میں تبدیلیاں کرنی ہیں، نئے قوانین بنانے ہیں اور پُرانے قوانین میں بہت سی ترامیم کرنی ہیں۔ اس منشور کو اُس وقت تک عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا جب تک قانونی اصلاحات متعارف نہیں کروائی جاتیں۔
تحریک انصاف نے اپنی اسی منشور میں نئے پاکستان کا تصور پیش کیا۔ اسی منشور میں سب سے پہلے تحریک انصاف نے اپنی سابقہ کے پی کے کی حکومت میں پولیس اصلاحات کو ایک عظیم کامیابی گردانا ہے۔ تحریک انصاف نے کے پی کے پولیس ایکٹ دوہزار سترہ متعارف کروایا۔ خیبر پختونخواہ میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشن ریفارم ایکٹ دوہزار سترہ متعارف کروایا۔
یہ ساری تفصیلات تحریک انصاف کے منشور دوہزار اٹھارہ میں درج ہیں جو میں نے پیش کی ہیں۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی حکومت اپنے منشور کے مطابق مندرجہ ذیل اقدامات کرنا چاہتی ہے جس کے لئییاُسے ہرصورت ایک موثر قانون سازی کی ضرورت ہے جسے اپوزیشن بینچوں کی مدد کے بغیر کسی بھی صورت عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا ہے۔ انتظامی ڈھانچے کی اصلاحات
احتساب قوانین میں نقائص خصوصا پلی بارگین اور رضاکارانہ طور پر رقوم کی واپسی کے حوالے سے شقوں کا جائزہ لیں گے۔
بیرون ملک سے لوٹی دولت واپس لانے کے لئیے ایک ٹاسک فورس کی تشکیل۔ اس کے لئیے بھی نئے قوانین متعارف کروانے پڑیں گے۔
ایک نئے بلدیاتی نظام کو متعارف کروایا جائے گا اور سٹی گورنمنٹ ماڈل متعارف کروائیں گے جہاں عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب ہونے والا شہری مئیر شہری امور کی انجام دہی کے لئے ذمہ دار ہوگا۔ پولیس ریفارم کی جائیں گیں۔
نظام انصاف کی اصلاح اور انصاف کی تیز ترین فراہمی کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس کے لئیے بھی مناسب قانون سازی درکار ہے۔ سول سروس کی اصلاح قانون سازی میں اصلاحات کے ذریعے سہولیات کی فراہمی۔ انتظآمی بُنیادوں پر جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی راہ ہموارکرنا اقلیتوں کے حقوق کی اصلاحات صفنی مساوات کے فروغ کی اصلاحات ایف بی آر میں اصلاحات معیشت کے بنیادی اداروں کو بدلنا سٹیٹ بینک میں اصلاحات زراعت کے شعبے میں اصلاحات صحت کی اصلاحات نئی تعلیمی پالیسی اور تعلیم میں اصلاحات ماحولیات کے شعبہ میں اصلاحات اور نئی پالیسی خصوصی افراد کے لئیے اصلاحات
مندرجہ بالا جتنے بھی نکات میں نے اوپر لکھے ہیں ان سب پر کام کرنے کے لئیے مناسب قانون سازی کے لئیے اگر ریاض فتیانہ صاحب نے اپنے کمیٹی ممبران کو گلدستے پیش کئیے ہیں تو کچھ غلط نہیں کیا ہے۔
اگر آپ واقعی تحریک انصاف کے دوست ہیں اور اپنی پارٹی سے مخلص ہیں تو پھریہ آپ کی تنقید بلاجواز ہی نہیں بلکہ غیرمعقول بھی ہے۔ اگر اپوزیشن کا تعاون نہیں لیتے تو یہ ایوان کبھی نہیں چل سکتا۔ حکومت اپنے منشور پر کسی بھی طرح سے عمل نہیں کرپائے گی۔
جو لوگ ریاض فتیانہ پر تنقید کررہے ہیں اُن سے گزارش ہے کہ ٹھیک ہے ریاض فتیانہ صاحب کے گلدستے بھی واپس ہوجاتے ہیں آپ صرف تنقید نہ کریں بلکہ مسائل کا حل بھی دیں۔ پہلے تو جائیں دوتہائی اکثریت لے کرآئیں پھر بات کریں۔ حکومت کے پاس وزن ہے نہیں، اتنی طاقت ہے نہیں ہے کہ کوئی قانونی مسودہ پاس کروالیں اور دوسری طرف آپ لوگوں کی انوکھی منطق کہ چوروں کو گلدستے کیوں دئیے؟
یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی پارٹی غدار نہیں ہے۔ یہ سیاسی جنگ ہے اور سیاسی جنگیں ہمیشہ سیاست کے میدان میں اور ٹیبل پر بیٹھ کرلڑی جاتی ہیں۔ کیا یہ سیاسی جنگ نہیں تھی کہ فواد چوہدری اور بابر اعوان جیسے لوگ جو تحریک انصاف پر تنقید کرتے تھے آج اسی حکومت کا حصہ ہیں؟ میں اُن جاہلین مطلق سے کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ کا واسطہ ہے کہ سیاسی شعور حاصل کریں، سیاسی بلوغت حاصل کریں۔ اس سیاسی جنگ کو حق اور باطل کی جنگ مت سمجھیں اور نہ ہی یہ حق و باطل کی جنگ ہے۔ یہ سیاسی جنگ ہے جسے ہم سب نے مل جل کر لڑنا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ بحثیت ایک قوم کے اس سیاسی جنگ کولڑنا ہے تو اس کے لئیے ضروری ہے کہ وزیراعظم عمران خان سب سے پہلے اپنے ملک کے اندر عقل وشعور، باہمی روادری و محبت کا بم چلادیں اور جب ہم ایک قوم بن جائیں گے تو پھر ایٹم بموں سے نہیں بلکہ جذبوں سے ہم ہرقسم کی اندرونی و بیرونی یلغار کا مقابلہ کرسکیں گے وگرنہ کہیں دور نہ جائیں بلکہ ایک عرب ملک شام پر نظر دوڑائیں۔
سیاسی اختلاف میں شعلہ بیانی بہت آسان ہے لیکن سیاست پل باندھنے کا نام ہے۔ سیاست بہت سی غیرمعمولی ذہانت اور دولت کا کھیل نہیں۔ اس میں علم کو عوامی تائید کے ساتھ جوڑ کر قوم کا رخ متعین کیا جاتا ہے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے ایک بوڑھا ویت نامی یاد آگیا کہ جس سے میں نے پوچھا کہ بابا جی ویت نام پر امریکیوں نے کونسے مظالم نہیں کئیے؟ نہ آپ کے بچوں کو چھوڑا، نہ آپکی عورتوں کو اور نہ مردوں کو۔ جو بھی اُن کے سامنے آیا انہوں نے بے رحمانہ انداز میں بمباری کرکے عام عوام کو قتل کردیا لیکن آج جب میں ویت نام کو امریکہ کا سب سے اچھا دوست دیکھتا ہوں تو مجھے بہت حیرت ہوتی ہے۔ وہ بوڑھا کہنے لگا کہ تم ٹھیک کہتے ہو لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ امریکہ نے ہم پر حملہ کیا اور ہم نے اُسے نہ صرف مونہہ توڑ جواب دیا بلکہ شکست فاش بھی دی۔
امریکہ نے جو بویا تھا وہ کاٹ لیا۔ اب اگر ہم وُہی مظالم بار بار اپنے نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈالیں گے اور امریکہ کو اپنا بدترین دشمن کہیں گے تو ویت نامی کی سڑکوں پر کوئی بھی گورا نظر نہ آتا۔ اس ملک میں چالیس ملین لوگ سالانہ صرف یورپ اور امریکہ سے سیاحت کی غرض سے آتے ہیں اور کروڑوں ڈالر اس ملک میں خرچ کرتے ہیں۔ ہم نے بس ایک کام کیا کہ اُس نفرت کو نئی نسل کے سینے میں منتقل نہیں کیا۔ اب زمانہ بدل چکا ہے ہمیں ماضی کو بھول کر مستقبل کو دیکھنا ہوگا۔ کل کے دشمن آج کے بہترین دوست بھی ہوسکتے ہیں اور یہی تعمیری سیاست ہے۔ اب مستقبل جنگوں کا نہیں ہے بلکہ دوستی کا ہے۔
جنگ ہمیشہ تباہی لاتی ہے اور گفت و شنید ہمیشہ امن اور استحکام لاتا ہے۔ آج ویت نام کا شمار دُنیا کی چوتھی بڑی اُبھرتی ہوئی معیشت میں ہوتا ہے۔ اس لئیے جناب بس کریں پارٹی وابستگی کو چھوڑ کر بحثیت ایک پاکستانی کے اس ملک کی بقاوبہتری کے لئیے بھی سوچ لیں ورنہ شام کا انجام تو اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ وہ کونسے باہمی سیاسی اختلافات تھے کہ جن کی بناء پر یہ ملک دولخت ہوچکا ہے؟ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی اگر ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا تو پھر جہالت کی سیاہ رات پتہ نہیں کتنی دیر باقی رہے۔