تحریر : حاجی زاہد حسین خان حضرت دائود کی خدمت میں ایک کسان حاضر ہو ا شکائیت کی یا حضرت فلاں چرواہے کی بکریوں نے میرے کھیت کی ساری فصل اجاڑ دی مجھے انصاف دیا جائے۔ دائود نے چرواہے کو بلا یا چرواہے نے بھی اقرار کیا تب حضرت نے فیصلہ سنایا چروہا اپنی ساری بکریاں کسان کو دے دے اتفاقاً سارے فصل کی قیمت ساری بکریوں کے برابر تھی کسان تو خوشی خوشی بکریاں لے کر گھر چلا گیا ۔ مگرچرواہا روتا بلکتا حضرت سلیمان کے پاس پہنچا ۔یا حضرت میں برباد ہو گیا۔ میراگزر بسر ان بکریوں پر ہی تھا ۔ وہ میں نے آپ کے والد محترم کے فیصلے کے مطابق کسان کے حوالے کر دیں۔ تب سلیمان نے کسان کو بلایا اور اپنا فیصلہ سنایا کہ چرواہا دوبارہ اس کھیت میں فصل بیجائی کرے فصل پکنے پر کسان کے حوالے کرے تب تک بکریوں سے استفادہ کسان اٹھائے فصل تیار ہونے پر ساری بکریاں وہ چرواہے کو واپس کر دے ۔ اس طرح کسان کا نقصان بھی پورا ہو جائے گا اور چرواہے کو بھی اپنی بکریاںواپس مل جائیں گیں۔ اس پر دونوں راضی ہوئے اور خوشی خوشی اپنے گھروں کو لوٹے ۔ تب کسی نے حضرت سلیمان سے گزارش کی یا حضرت آپ نے اپنے والد محترم کا فیصلہ بدل دیا وہ درست نہ تھا۔ تب حضرت نے فرمایا نہیں نہیں حضرت والد محترم کا فیصلہ شریعت کے مطابق تھا۔ اور میرا فیصلہ حکمت پر تھا۔ دونوں فیصلے درست ہیں۔ الغرض دونوں فریق راضی ہو گئے۔
اللہ اللہ نہ وکیل نہ گواہان نہ تاخیر ۔ حضرت عمر فاروق کی خدمت میں ایک بچے کی دو مائیں وارث بن کر حاضر ہوئیں ایک نے اپنا حق جتایا دوسری نے اپنا ۔ آخر منصف اعظم عمر فاروق نے کمال حکمت عملی سے حکم دیا۔ بچے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کو دیئے جائیں۔ تب اصل ماں تڑپ اٹھی یا امیر المومنین نہیں نہیں بچے کو دو حصے نہ کریں بچہ میرا نہیں دوسری ماں کو دے دیں۔ میں دستبردار ہوتی ہوں۔ تب فیصلہ صادر ہوا بچہ اسی دستبردار ماں کو دیا جائے اللہ اللہ کیا حکمت تھی اس فیصلے میں مگر وہاں بھی وکیل تھے نہ گواہان یہ فیصلہ آئین و قانون پر نہیں ۔ حکمت کا فیصلہ تھا۔ مغلیہ دور کے اکبر بادشاہ نے اپنی جان بچانے پر ایک عام انپڑھ ماشکی بچہ سقہ کی خوائش پر اسے ایک دن کی حکومت دیدی تب ایک دن کے بادشاہ نے کرسی اقتدار پر بیٹھتے ہی تین فیصلے کئے۔ قریہ قریہ پانی کے ٹیوب ویل لگانے کا حکم چمڑے کے سکے کا اجراء کا حکم ۔ ابھی دن کا کچھ حصہ باقی تھا۔ تب ایک مقدمہ آن پیش ہوا ایک عورت کے دو حق دار حاضر ہوئے ۔ بادشاہ سلامت یہ میری بیوی ہے۔ موچی نے کہا۔ بادشاہ نے حکم دیا عورت اس کے ساتھ کھڑی ہو جائے عورت آئی کھڑی ہو ئی مگر اس نے موچی کے بغل میں اپنی ناک پر کپڑا رکھ لیا۔
تب حکم ہوا اب دوسرا فریق نائی عورت کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔ موچی کو واپس بھیج دیا گیا۔ تب عجیب بات ہوئی عورت نے اپنی ناک سے کپڑا ہٹا دیا۔ باد شا ہ سلامت فیصلہ پرپہنچ گئے فیصلہ ہوا۔ یہ عورت اس نائی کی بیوی ہے۔ حکمت یہ تھی کہ جو عورت چند گھڑی اس موچی کے ساتھ کھڑی نہ ہو سکی اس کی بدبو کی وجہ سے وہ ساری زندگی اسے کیسے قبول کر سکتی ہے۔ لہذا یہ نائی کی بیوی ہے۔ اس کے حوالے کی جائے۔ وہ عورت خوشی خوشی اس نائی کے ساتھ چلی گئی۔ قارئین تب بھی وکلاء تھے نہ جھوٹے گواہان ۔ اور یہ فیصلہ بھی حکمت پر ہوا۔ قانون کی ضرورت نہ پڑی ۔ ثابت یہ ہوا کے تاریخ کے بڑے بڑے فیصلے صرف قانون آئین اور شریعت پر ہی نہیں قاضی جج اور منصف کی اپنی صوابدید پر اور حکمت عملی پر بھی ہوتے آئے ہیں۔ مگر افسوس ہمارے پیارے وطن عزیز پاکستان خداداد پاکستان اور آزاد کشمیر ریاست کشمیر میں شریعت کے فیصلے ہیں نہ حکمت کے ہمارے ججوں کے ہماری عدلیہ کے ہمارے منصفوں کی اکثریت کے فیصلے سیاسی مصلحتوں وکلاء کی چرب زبانی اور کرائے دار گواہان کی صوابدید پر منحصر ہوتے ہیں۔ جہاں انصاف کا گلہ گھٹ کر رہ جاتا ہے۔
Nation
قارئین پچیس کروڑ شہریوں کے اس ملک میں روزانہ لاکھوں نہیں تو ہزاروں سائلین اپنے اپنے قضیے دکھڑے جن میں اکثریت مقتولوں کے وارثوں کی ہوتی ہے مگر مقدمات ہیں کی شیطان کی آنت کی طرح لمبے ہوتے جاتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسری تیسری اور پھر چوتھی عدالتیں۔ مگر کیا مجال وقت پر یا حتمی فیصلے ہوں مدعین خود ہی روپیٹ کر یا گھر لوٹا کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔ آج تک ہماری ان عدالتوں نے ان منصفوں نے کتنے پھانسی گھاٹ سجائے کوڑے لگائے سنگسار کئے ہمارے منصفوں کی اکثریت نے پوری سروس میں اگر دوچار فیصلے سنائے کروڑوں کے مشائیرے کمائے اپنا بوجھ دوسری عدالت کے کندھے پر چھوڑ کر کسی نہ ک سی سیاسی جماعت میں جا شامل ہوئے۔ تو کیا اس کو عدل وانصاف کہتے ہیں۔ جو جج جو منصف اگر چند فیصلے کریں بھی تو ہمارے ہاں بدقسمتی سے انہیں متنازعہ بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کو ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں کو وہ قابل قبول نہیں پسند نہین ہوتے ۔ جو ماضی میں مولوی تمیز الدین ہوں یا جسٹس نعیم حسن شاہ ، جسٹس سجاد ہوں یا جسٹس افتخار کیا انکے فیصلوں کو متنازعہ نہیں بنایا گیا۔ عام آدمی کو چھوڑیں ملکی سطح کے قومی سطح کے حادثات پر کمیشن بنتے گئے حتی کہ محمود الرحمن کمیشن یا ایبٹ آباد پشاور کمیشن اس طرح کے درجنوں کمیشنوں نے آج تک کوئی خاطر خواہ فیصلہ کیا نہ مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا لگتا نہیں ہے کہ ہماری عدالتیں فیصلہ سازی میں آزاد نہیں یا حکمت کے فیصلوں سے عاری ہیں۔ کمیشن کوٹ ہو یا ہائی کورٹ حتی کہ سپریم عدالت میں مقدمات کے انبار لگے ہیں۔ دیوانی مقدمات کو زندگانی اور فوجداری مقدمات کو اچھا داری بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ ہماری عدالتیں بیس بیس سال مجرموں کو قید و بند کی صعوبت مٰں رکھ کر بھی انہیں انجام تک نہیں پہنچا سکیںوہ بھی حال ہی میں فوجی عدالتوں نے جو کہ ہماری سول عدلیہ کے منہ پر تماچہ ہیں پرانے اور ملک دشمن مجرموں کو کیفرے کردار کو پہنچا یا یہ بھی ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے میں انصاف فوری او رسستا کیسے ہو ۔ امن کیسے ہو۔
ملک ترقی کیسے کرے معاشرے میں سکون کیسے ہو۔ حضرت علی المرتضی نے کیا خوب فرمایا تھا کہ ۔ کفر سے تو معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ناانصافی سے معاشرے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔ قارئین سچ پوچھیں تو ہمارے معاشرے کی تمام بیماریاں چاہے وہ دہشت گردی ہو چوری ، بدیانتی ہو ، رشوت کرپشن ہو ملاوٹ منافع خوری ہو عصمت دری یا قتل و غارت ہو اس کے پیچھے صرف و صرف نا انصافی ہے فوری اور سستا انصاف نہیں۔ ہمارے ججوں منصفوں قاضیوں کے بروقت نہ ہونے والے فیصلے ہیں ۔ جن میں ہمارے چرب زبان مہنگے وکیل جھوٹے گواہان مجرموں کے سروں پر سرپرستی کرنے والے سیاست دان حکمران اور سچ نہ لکھنے والے قلمکار بھی سب برابر کے شریک ہیں۔ کسی ایک فریق پر تنقید نہیں قارئین جہاں سارے کا سارا آوہ ہی بگڑا ہو ا ہو ۔ جس معاشرے میں عدل وانصاف بکتا ہو اہل علم صرف بی ایل بی کی ڈگری یافتہ وکیل سمجھے جاتے ہوں جنہیں چرب زبانی کی بنیاد پر چند سالوں میں اعلیٰ عدالتوں کے جج اور منصف لگا دیا جائے ۔ جنہیں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ملک وریاست کی منصفی سونپ دی جائے ۔ اہل علم مفتیان ، علماء فضلاء اور دانشور طبقے کو عدالتوں سے دور رکھا جائے اداروں سے دور رکھا جائے مٹھی بھر قاضیوں کو عام ججوں کا تا بعدار بنا دیا جائے عدالتیں کسی کے آگے جوابدے نہ ہوں جج فیصلوں کے پابند نہ ہوں اچھے اور قابل ججوں کے فیصلوں کو متنازعہ بنا دیا جائے۔
شریعت کا انصاف ہو نہ حکمت کے فیصلے ہوں وہاں عام آدمی کو انصاف کیسے میسر ہو گا۔ معاشرے کی اجتماعیت کیسے قائم رہے گی۔ خداراہ ہمارے معاشرے کا ہر فرد ہر فریق ہر ادارہ اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھالے کردار نبھائے ورنہ مظلوم کی آہ آسمان گرا دیا کرتی ہے۔ اور زمین پھاڑ دیا کرتی ہے۔ دنیا تو سب کی گزر جائے گی مگر محشر کے دن ایک طرف غریب مظلوم ہونگے مقتولوں کے ورثا ااور مقتول ہوں گے ۔ قاتل اور قاتلوں کے ورثا ہوں گے تو دوسری طرف عدل و انصاف نہ کرنے والے ہمارے جج منصف وکلاء اور جھوٹے گواہان اور ہمارے حکمران ہونگے ۔ مقتولوں کے ساتھ قاتل بھی فریاد کریں گے ۔ یا اللہ ہم نے قتل کیا تھا جرم کیا تھا مگر ہمارے ان منصفوں نے ہمیں بیس بیس سال پابند سلاسل رکھا فور ی انصاف نہ کیا اور پھر ہماری موت کا حکم سنایا اپنے مقتولوں کے ساتھ ہم بھی مظلوم ہیں۔ اور ہماری مظلومیت کے ذمہ دار یہ گروہ ہیں یہ گروہ ہیں یہ لوگ ہیں تب پھر کیا ہو گا؟۔
Haji Zahid Hussain
تحریر : حاجی زاہد حسین خان hajizahid.palandri@gmail.com