تحریر: شہزاد، عمران رانا ایڈووکیٹ کافی طویل انتظار کے بعدبالآخر لاہور بار ایسوسی ایشن نے بروز جمعہ کو موجودہ حکومت کی جانب سے تحفظ ِناموسِ رسالت ﷺکے قانون میں مبینہ ردوبدل کے خلاف بروز ہفتہ کو مکمل عدالتی بائیکاٹ یعنی ہڑتال کا اعلان کیا تھا ۔طویل انتظار کی اصل وجہ کے بارے میں زیادہ تر وکلاء کی یہی رائے تھی کہ موجودہ صدر لاہور بار ایسوسی ایشن کی سیاسی وابستگی ہے مگربار ممبران کے مسلسل دباﺅ کی وجہ سے اُن کو یہ اعلان کرنا پڑا۔
یہ اتفاق کی بات تھی کہ بروز ہفتہ جب لاہور بار ایسوسی ایشن کی جانب سے ہڑتال کا اعلان کیا گیا تھاتو اُسی روز موجودہ حکومت کے نااہل مشیروں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج میں 20روز سے جاری پرامن دھرنا مظاہرین کے خلاف صبح تقریباً7:30بجے آپریشن کا آغاز کردیا جس کے بعد لاہور بار ایسوسی ایشن کے ممبران کی ایک بڑی تعداد 11 بجے ہاﺅس کے اجلاس میں شرکت کے لئے جمع ہونا شروع ہوگئی مگر موقعہ پر لاہور بار ایسوسی ایشن کی کابینہ نہ پہنچی جس پر اشرف عاصمی، ایم ایچ شاہین ، رانا سعید انور، طلال مشتاق اور عثمان افضل غوری سمیت دیگر ممبران نے خود ہاﺅس کا اجلاس شروع کرلیا اور تقاریر کے بعد پی ایم جی چوک لوئر مال میں دھرنا دینا کا فیصلہ کیا گیا ۔پی ایم جی چوک لوئر مال پر دھرنا کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ جلوس کی شکل میں پنجاب اسمبلی ہال فیصل چوک تک پیدل مارچ کیا جائے اور احتجاج ریکارڈ کروایا جائے۔
بس پھر وہ ہوا جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھاوکلاءچلتے رہے اور عام لوگ بھی اِس قافلے میں شامل ہوتے رہے ۔جگہ جگہ وکلاءکا استقبال کرنے کے لئے عام لوگ ٹولیوں کی شکل میں موجود تھے ۔وکلاءنے مسلسل تین گھنٹے اپنا احتجاج جاری رکھا بعد میں لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری تنویر اختر اور سیکرٹری جنرل فرحان مصطفی جعفری بھی اِس احتجاج میں شامل ہوگئے ۔اِس احتجاج کے دوران ہی پورے لاہور میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیابلکہ میں یہ بات فخر سے کہوںگا کہ لاہور میں بروز ہفتہ سے شروع ہونیوالے احتجاج کی بنیاد وکلاءبرداری نے ڈالی اور میں خود بھی اِس احتجاج کا حصہّ تھا۔اِس طرح ایک بہت بڑے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے علامہ آصف اشرف جلالی داتا دربارلاہور سے فیصل چوک تشریف لائے اور وکلاءکے احتجاج میں شامل ہوگئے جس کے بعد دھرنا دینے کااعلان کیا گیا جو اب تک جاری ہے اور موجودہ سولین حکومت نے نجی چینلز ،سوشل میڈیا،انٹرنیٹ سروس، موبائل سروس اور موٹر وے بند کردی ایسا معلوم ہورہاتھا جیسے ملک میں” نیم ایمرجنسی “نافذ ہوگئی ہے مگر اتوار کی شام آرمی چیف نے مداخلت کرتے ہوئے نجی چینلز ،سوشل میڈیا،انٹرنیٹ سروس اور موبائل سروس مکمل طور پر بحال کروائی ۔ دراصل موجودہ حکومت کے نااہل مشیروں کے غلط مشورے کی وجہ سے ایک فیض آباد انٹر چینج دھرنا ختم کروانے کی بھرپور مگر ناکام کوشش کی وجہ سے اِس وقت پورے ملک کے شہر شہر میں جگہ جگہ دھرنے جاری ہیں اورجو لوگ دھرنوں میں شامل نہیں بھی ہیں وہ اپنی پریشانی کے باوجود مظاہرین کے مقصد کے حامی ہیں صرف وہ لوگ اِس احتجاج کے مخالف ہیں جوقادیانی ہیں۔
جہاں تک بات تحفظ ِناموسِ رسالت ﷺکے قانون میں مبینہ ردوبدل کی ہے تو اِس میں اتنی باریکی سے کاروائی ڈالی گئی ہے کہ اگر فیض آبادانٹر چینج پر دھرنا نہ ہوتا تودشمنانِ اسلام نے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاناتھا۔ اِس مبینہ ردوبدل میں سب سے پہلے حلف نامہ تبدیل کیا گیا ہے جس کے مطابق حلف کی جگہ اقرار کا لفظ شامل کردیا گیا ہے یہ ساری کاروائی مغربی ممالک کے ایماءپر کی جارہی ہے تاکہ قادنیوں کو مسلمانوں میں شامل کرنے کی ناپاک سازش کی جاسکے۔جب یہ معاملے آج سے 43سال پہلے طے ہوچکا تھا تواب اِس قانون میںچھیڑچھاڑکی کیا ضرورت آن پڑی؟
پہلے سے موجودہ دو بنیادی قوانین جو قادنیوںکے لئے ہیں 1974سے چلے آرہے ہیں جن کے مطابق اگر کوئی قادیانی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے الیکشن لڑے یا رکن ِ اسمبلی منتخب ہوجائے اور اُس پر کوئی اعتراض داخل کردے کہ یہ مسلمان نہیں قادیانی ہے تو وہ فارم نمبر4حلفاًبھرے گا کہ ”میں رسول اللہ ﷺ کی ختم ِ نبوت پر کامل اور قطعی ایمان رکھتا ہوں“ مگرافسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے یہ مبینہ ردوبدل کی اور عوام کو گمراہ کرتے رہے ۔جہاں تک بات وفاقی وزیر ِقانون زاہدحامد کی ہے تو اُن کے حلقے میں قادنیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔
ہمارے لوگوں کو یہ نہیں یاد کہ تحفظ ِناموسِ رسالت ﷺکے قانون میںمبینہ ردوبدل پر سب سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے وفاقی وزیر ِقانون سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایوان ِبالا میں قائد ایوان راجہ ظفرالحق کی سربراہی میںایک انکوئری کمیٹی تشکیل دی جس نے اِس نازک معاملے کی تحقیقات کیں مگر رپورٹ عام نہیں کی گئی۔بالآخر بروز اتوار علی الصبح دھرنے کے 22ویں روزفریقین میں6 نکاتی معاہدہ طے پاگیااوروفاقی وزیر قانون زاہدحامدنے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا مگر سربراہ تحریک لبیک یا رسول اللہﷺ علامہ خادم حسین رضوی نے کارکنوں کی رہائی تک فیض آباددھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا جبکہ ملک بھر میں جاری باقی تمام تر دھرنوں کو فوری ختم کرنے کا اعلان کردیا۔یادرہے کہ ہمارے ملک کا مکمل نام” اسلامی جمہوریہ پاکستان “ہے اگرایسی ناپاک سازشیں ہی کرنا تھیں تو ہمیں ہندوستان سے ”دوقومی نظریہ“ کی بنیاد پر علیحدہ ہونے کی کیا ضرورت تھی ؟ پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ لااِلٰہ اِلا اللہ