ایک لیکچرار کلاس روم میں اپنے سٹوڈنٹ کو قانون کے بارے آگاہی دیتے ہوئے کہنے لگا کہ قانون کی ڈگری حاصل کر لینا کوئی بڑی بات نہیں قانون کی بالادستی کیلئے مظلوم کو عدل و انصاف کے ساتھ ساتھ قانون شکن عناصر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جانا بہت بڑی بات ہے اسی لیکچر کے دوران مذکورہ لیکچرار نے اپنے ایک سٹوڈنٹ کو بلاوجہ کلاس روم سے نکل جانے کو کہا حالانکہ اس دوران مذکورہ سٹوڈنٹ نے لیکچرار کی کافی منت سماجت کی کہ میرا کوئی قصور نہیں مجھے کیوں نکالا جا رہا ہے لیکن لیکچرار باضد رہا اور اُس نے بالآ خر اس سٹوڈنٹ کو کلاس روم سے سخت بے عزت کرنے کے بعد نکال دیا مذکورہ سٹوڈنٹ کو کلاس روم سے نکالنے کے بعد لیکچرار نے دوبارہ لیکچر دینا شروع کر دیا کہ قانون کی ڈگریاں حاصل کرنے والے ظالم و جابر بااثر افراد کے ظلم و زیادتی کا شکار ہونے والے مظلوم اور بے بس غریب افراد کو نوٹوں کی چمک سے مرعوب ہو کر عدل و انصاف نہیں دلوا سکتے تو وہ در حقیقت نہ صرف قانون بلکہ انسانیت کے نام پر ایک بد نما داغ ہیں اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو آج کے اس پر آشوب معاشرے میں لاتعداد افراد قانون کی بڑی بڑی ڈگریاں قانونی و غیر قانونی طور پر حاصل کر کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو کر حرام کی کمائی کے پجاری بن کر ملک وقوم کی عظمت کو پامال کر کے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں اور ہاں بعض افراد ایسے بھی ہیں جو بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود ملک وقوم کی بقا کے ساتھ ساتھ انسانیت کی عظمت کی خاطر اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کر رہے ہیں درحقیقت تو یہ ہے کہ انہی اعلی ظرف افراد کی وجہ سے پاکستان زندہ باد اور پائندہ باد ہے۔
اس لیکچر کے بعد مذکورہ لیکچرار نے اپنے سٹوڈنٹ سے پوچھا کہ میں نے جو آپ کے ساتھی کو بلاوجہ کلاس روم سے نکالا کیا یہ میرا اچھا اقدام ہے یا غلط جس پر متعدد سٹوڈنٹ مارے ڈر کے خاموش رہے جبکہ چند ایک سٹوڈنٹ نے مذکورہ لیکچرار کے اس اقدام کو غلط قرار دے دیا جسے سن کر مذکورہ لیکچرار نے اُن چند ایک سٹوڈنٹ کو شاباش دیتے ہوئے کہا کہ تمھارا زندگی کا یہی مقصد ہے کہ تم حق و باطل کی تمیز رکھتے ہوئے عدل و انصاف کی تاریخ رقم کرو تاکہ تمھاری دنیا بھی سنور جائے اور عاقبت بھی یہ کہہ کر مذکورہ لیکچرار نے سٹوڈنٹ کو کہا کہ آج کا آپ کا یہی سبق ہے جسے آپ ہمیشہ یاد رکھنا چونکہ زندگی کا مقصد صرف دولت کمانا نہیں زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے لہذا تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم انسانیت کی بقا کے حصول کی خا طر دن رات کوشاں رہو گے بالکل اسی طرح آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ گزشتہ روز مجھے اطلاع ملی کہ سی او ہیلتھ جھنگ رائے سمیع اللہ انسانیت کی بقا کے حصول کی خا طر اپنے فرائض و منصبی ادا کرنے میں دن رات کوشاں ہیں اور وہ بھی ایسے حالات میں جس میں ہر دوسرا شخص دولت کی ہوس کے حصول کی خا طر نفسا نفسی کا شکار ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو بیٹھا ہے یہ اطلاع پا کر مجھے انتہائی خوشی ہوئی اور حیرت بھی خوشی اس بات کی کہ لوٹ کھسوٹ کے اس بے لگام معاشرے میں کوئی مسیحا تو ایسا آیا ہے جو حرام کی کمائی سے زیادہ انسانیت کی خدمت کو ترجیح دیتا ہے۔
حیرت اس بات کی ہوئی کہ وہ ابھی تک مفاد پرست سیاست دانوں جو ضلع جھنگ کو اپنی جاگیر جبکہ یہاں کی انتظامیہ کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں کے نرغے میں نہیں آیا بہرحال میں مذکورہ سی او ہیلتھ جھنگ رائے سمیع اللہ کی اس جرات مندانہ اقدام کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں مذکورہ آفیسر کی توجہ سٹی ہسپتال جھنگ کی جانب ضرور کروانے میں اپنا اہم کردار ادا کروں گا سٹی ہسپتال جھنگ جس کے گردونواح کی آبادی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں پر پہنچ گئی ہے لیکن افسوس کہ مذکورہ ہسپتال میں ایمر جنسی وارڈ تو ہے لیکن عوام میڈیکل سر ٹیفکیٹ حاصل کرنے سے قاصر ہیں یہاں پر ڈینٹل سرجن تو ہے لیکن افسوس کہ مشینری کے نہ ہونے کے سبب مذکورہ سرجن ڈاکٹر ہاتھ پر ہاتھ رکھے اپنے فرائض و منصبی ادا کرنے میں مصروف عمل ہے مذکورہ ہسپتال میں ایمبولینس کا ڈرائیور تو ہے لیکن ایمبو لینس کے نہ ہونے کے سبب مذکورہ ڈرائیور ہاتھ پر ہاتھ رکھے اپنے فرائض و منصبی ادا کرنے میں مصروف عمل ہے۔
مذکورہ ہسپتال میں زچگی کے لاتعداد مریض تو ہیں لیکن مذکورہ ہسپتال میں نشہ دینے والے سرجن ڈاکٹر کے نہ ہونے کے سبب متعدد مریض بر وقت طبی امداد نہ ملنے کے سبب اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں مذکورہ ہسپتال میں ریڈیا لوجسٹ ڈاکٹر کے نہ ہونے کے سبب لاتعداد غریب مریض بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں مذکورہ ہسپتال میں آپریشن تھیٹر تو ہے جو اب ٹی روم بن چکا ہے جہاں پر مذکورہ ہسپتال کے ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز کے علاوہ خوشامدی عملہ دس بجے تک ٹی پارٹی کرتے رہتے ہیں جبکہ دوسری جانب غریب مریض بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر ٹی روم کی جانب حسرت بھری نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں مذکورہ ہسپتال کی ایکسرے مشین کی حالت زار بدتر ہو چکی ہے۔
مذکورہ ہسپتال میں آئی سپیشلسٹ کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا مذکورہ ہسپتال کے آر تھو پیڈک سرجن ڈاکٹر قیصر علیانہ اپنے فرائض و منصبی چھوڑ کر مذکورہ ہسپتال کے ایم ایس کے فرائض ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں یہاں افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ مذکورہ ہسپتال میں ادویات تو ہیں لیکن مذکورہ ہسپتال کے باہر بنے ہوئے پرائیویٹ میڈیکل سٹور آباد ہیں اور وہ بھی غریب مریضوں کی بھرمار سے مذکورہ ہسپتال میں ہر سال تعمیر و مرمت کے نام پر کروڑوں روپے کے فنڈز آتے ہیں لیکن نظر کہیں نہیں آتے قصہ مختصر مذکورہ ہسپتال بے بسی اور لاچارگی کی منہ بولتی تصویر ہے جس کو آپ جیسے مسیحا کی ضرورت ہے۔
بک گیا دوپہر تک بازار کا ہر ایک جھوٹ اور میں شام تک بس ایک سچ کو لیے یونہی کھڑا رہا