تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری کسی بھی مذہب کے پیغمبروں پیشوائوں کی توہین سخت جرم ہے خصوصاً پاکستان میں تو مذہبی اقدار اوررسالت مأب ۖ کی جان بوجھ کر توہین کرنے کے مجرم کی سزا آئینی و قانونی طور پر متعین ہے پھر مردان یونیورسٹی جیسے واقعات کیوں رونما ہوجاتے ہیں؟اس پر گہرے غور و فکر کرنے اور اس مسئلہ کے دیر پا حل کے لیے توجہ مرکوز کی جانی چاہیے ہمارے سابق گورنر پنجاب نے اس مرُتدہ خاتون کی جیل میں جا کر ملاقات کی جسے توہین رسالت کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا باہر آتے ہی سلمان تاثیرنے ایسی اول فول باتیں کر ڈالیں جو براہ راست توہین رسالت کے زمرے میں آتی تھیں مذہبی طبقوں ،تنظیموں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ دیگر لبرل ایسو سی ایشنوں اداروں اور تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں نے بہت واویلا کیا، شور مچایا احتجاجی جلسے جلوس کیے مگر حکومت وقت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگنی تھی اور نہ ہی رینگی اور گورنر کو فارغ کرکے اس کے خلاف مقدمہ درج نہ کیا اس پر جذ بات کا امڈ آنا لازمی امر تھاتو انھی کے گارڈ ممتاز قادری شہید نے انھیں گولیوں سے بھون ڈالاکسی سیکولر طبقہ کو اس واقعہ کی مذمت کے دو بول بولنے کی بھی جرأت نہ ہو سکی حتیٰ کہ اسکا جناز ہ تک پڑھنے سے لوگوں نے انکار کر دیا یہاں تک کہ گورنر ہائوس کے امام مسجد بھی انکاری ہوگئے ۔قرار دیا گیا کہ مرتد و زندیق کا جنازہ کوئی مسلمان نہ ہی پڑھ سکتا ہے نہ ہی اس جنازے کی امامت کوئی مسلمان کرسکتا تھا۔بحر حال جوں توں کرکے یہ قضیہ تمام ہوا۔
اب حکومت نے قادری شہید کا تو مقدمہ تیزی سے چلایا اور انھیں پھانسی بھی دے ڈالی بھٹو کے مقدمہ کی طرح اسے بھی قوم جوڈیشل مرڈرہی قرار دیتی ہے دوسری طرف ملعونہ مرتدہ و زندیقہ کے فیصلے کے باوجود ابھی تک وہ پھانسی گھاٹ پر نہیں لے جائی گئی ایسے ہی حالات و واقعات کو ہوتے دیکھ کر پھر عام گناہ گار مسلمان میں بھی بد اعتمادی کی فضا بڑھتی چلی جاتی ہے کہ دیکھا حکمران توہین رسالت کی مجرمہ کو کیسے بچائے اور چھپائے بیٹھے ہیںمردان یونیورسٹی میں مشعال نامی طالب علم کا قتل بھی ایسا ہی واقعہ ہے تفتیشی و تحقیقی ادارے جلد اصل صورتحال سے آگاہ ہوجائیں گے اور اگر انہوں نے مناسب سمجھا تو عوام کو بھی اس کی بابت تفصیلات کا پتہ چل جائے گا مگر چونکہ یونیورسٹی کے تعلیمی اوقات میں ہی یہ ہوا ہے کہ ایک مجمع اختیار ہو کر اس کے پیچھے بھاگااور اس کی طرف سے ہو سٹل کے کمرہ میں گھس کر دروازہ کو اندر سے بند کرکے اپنے آپ کو مقید کرنے کے بعد بھی دروازہ توڑ کر اسے گولیوں سے چھلنی کر ڈالا گیاتو کوئی نہ کوئی تو وجۂ اشتعال ضرور ہو گی جس پر پڑھا لکھا مجمع بپھر کراسے قتل سے کم سزا دینے کو تیار نہ ہوااغلب امکان یہی ہے کہ اس کے منہ سے کوئی ایسے جملے سرز د ہوگئے ہوں گے یا اس نے سوشل میڈیا پر کوئی ایسی پوسٹ لگائی ہوگی یا ایسی بات کا اظہار کیا ہوگا جو توہین رسالت کے زمرے میںآتی ہوگی تبھی تو یونیورسٹی کے سینکڑوں طلباء اور دیگر ملازمین تک اسے قطعی طور پرمارنے پر تل گئے مشہور کالم نویس ہارون رشید کے صاحبزادے بلال الرشید نے”ماجرا” کے عنوان سے اپنے کالم میں مورخہ 16اپریل کو یہ تو واضح کردیا ہے کہ اس میں اسلامی جمیعت طلباء کا کوئی لینا دینا نہیں مگر کسی بھی یونیورسٹی میں مذہبی تنظیم اسلامی جمیعت طلباء ہی نہیں ہوتی دیگر کئی مذہبی رنگ لیے تنظیمیں موجود ہوتی ہیں ایسا نہ بھی ہو تو عام گنہگار سادہ مسلمان طالب علم کے بھی ویسے ہی جذبات و احساسات ہوتے ہیں۔کیا ہوا کیسے ہوا مکمل تفتیش سے آشکار ہو جائے گا۔
واضح ہے کہ ایسے واقعات قطعاً نہیں ہونے چاہیں کوئی خدائی فوجدار نہ بنے۔بلکہ قانونی تقاضے پورے کیے جانے ضروری ہیں حکومت کے پاس اس کے علاوہ اس کا کوئی حل نہ ہے کہ توہین رسالت سرزد ہوتے ہی فوراً مجرم کو قابو کر لیا جائے تاکہ وہ عوامی اشتعال سے بچ جائے۔مشعال کے مسئلہ پر آخر یونیورسٹی پولیس کہاں تھی؟ اور اس نے اسے فوراً گرفتار کیوں نہ کر لیا۔حکومت ایسے کیسوں کے فیصلے جلد از جلد کروائے۔قانون اپنا راستہ فوراً اور جلد ازجلد اختیار کرکے مجرم کو تختہ دار پر کھینچ ڈالے کہ مرتد کی سزا قرآن و حدیث اور پاکستانی قوانین کی رو سے اس کی گردن زدنی ہی ہے تاکہ فتنہ فوراً ہی دفن ہوجائے اور آئندہ کوئی دوسرا ایسی حرکت کرنے کی جرأت نہ کرے اس طرح پاکستان جس میں22کروڑ سے زیادہ مسلمان بستے ہیں کا اعتماد بحال ہو جائے گا۔اور وہ خود سزا دینے جیسے غلط اقدامات سے خود بخود گریز کریں گے۔کہ یہی دینی اقدار کا بھی تقاضا ہے ایسے ہی اب جو الفاظ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نے سود کے بارے میں ادا کردیے ہیں اس کی گہرائیوں میں جائیں تو وہ بھی واضح توہین رسالت کے زمرے میں آتے ہیں ان کا کہنا کہ ُاس دور میں سود کی ممانعت آ ج کے دور میں کیسے کی جاسکتی ہے وغیرہ۔اب حکومت سنی ان سنی کرڈالے اور کوئی ایکشن نہ لے اور ایسا فرد بدستور سرکاری عہدہ پر بھی متمکن رہے تو عوام میں توخوامخواہ اشتعال پیدا ہوگا اور اس کا کوئی گھمبیر نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔
حکومت عقل کے ناخن لے کر سوچے تو کسی بھی ایسے مسئلے کا فوراً نوٹس لینے سے خواہ مخواہ آنے والی بلا ٹل سکتی ہے کل کلاں کوئی اور بھی ایسا واقعہ رونما ہوگیاتو ہم صرف یہی کہتے رہ جائیں گے کہ یہ مذہبی انتہا پسندی کا نتیجہ ہے یہ بات پلے باندھ لینی چاہیے کہ حق و باطل میں ہمیشہ فرق واضح رہا ہے دین اور کفر کو ملا کر کوئی نئی شریعت گھڑی نہیں جاسکتی حق ہمیشہ ہی حق رہے گا خواہ پوری دنیا اسے ماننے سے انکار کردے اور باطل کی ساری دنیا ہی کیوں نہ پیروکار بن جائے تو بھی وہ باطل اور غلط ہی رہے گا۔
اسلئے دینی اقدار اور اس کے قواعد و ضوابط میں ایک آدمی درست ہوسکتا ہے اور دیگر لاکھوں غلط ۔کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے بہاولنگر جیسے پسماندہ ضلع میںقومی اسمبلی کے ایک ضمنی الیکشن میں اس وقت کی سرکاری ق لیگ کے امیدوار نے جب یہ کہا کہ میرے والد بھی بہت نیک انسان تھے اور مجھے اسی طرح عزیز اور پیارے ہیںجیسے آپ کو آقائے نامدار محمد مصطفیۖ۔تو اس پر مجمع بپھر گیا اور توہین رسالت کے ایسے الفاظ کہنے پر اسکے خلاف فتوے چھپے مگر اقتدار اور اس سے ان کی تعلق داری آڑے آگئی اور اسے جو جان کے لالے پڑچکے تھے وہ ٹل گئے اسی طرح سابقہ گورنر پنجاب اور اب وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کے بارے میں رعایتیں ہی دی جاتی رہیں تو پھر عوام کے جذبات کو کون کنٹرول کرے گا؟ اور انہیں ایسے واقعات پر خود فیصلے کرنے سے کون روکے گا۔وما علینا الالبلاغ