آزاد پاکستان، عمران خان کا خواب

Imran Khan

Imran Khan

تحریر:بلال احمد

گزشتہ برس مئی2013میں الیکشن ہوئے جس میں مسلم لیگ(ن)نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور مرکز و پنجاب میں حکومت بنائی ،پیپلز پارٹی نے سندھ اور تحریک انصاف نے خیبر پختونخواہ میں حکومت بنائی،تحریک انصاف پاکستان کی ایک سیاسی جماعت ہے جس کے سربراہ مشہور سابق کرکٹر عمران خان ہیں۔ “انصاف، انسانیت اور باعث فخر”جماعت کا نعرہ ہے۔ عمران خان اس سیاسی جماعت کے چیئرمین ہیں اور اس کے علاوہ وہ براڈفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں۔ عمران خان نے پولیٹیکل سائنس، اکنامکس اور فلسفہ میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہوئی ہیں۔

عمران خان نے25 اپریل، 1996ء کو تحریک انصاف قائم کرکے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ ابتدائی طور پر انھیں کامیابی نہ مل سکی۔ لیکن حالیہ دنوں میں وہ اپنی جدوجہد اور اصول پرستی کی بدولت پاکستانی عوام، خصوصا نوجوانوں میں تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔حال ہی میں عمران خان کی طرف پاکستان کے موجودہ نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کے لئے ایک حل پیش کیا گیا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل تین نکات ہیں،آزاد الیکشن کمیشن،آزاد عدلیہ اور آزاد احتساب بیورو،پارٹی اس حل پر عمل درآمد کے لئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ تحریک انصاف اس وقت اپوزیشن کی ایک جماعت کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

اس تحریک کا پاکستانی مڈل کلاس لوگوں پر بہت گہرا اثر ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں تحریک انصاف ایک مضبوط پارٹی بن کر ابھری ہے۔قومی اسمبلی میں اس کی اچھی خاصی نشستیں، جبکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں اس پارٹی کی حکومت ہے۔انتخابات کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے چار حلقے کھولنے کا کہا لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا ،تحریک انصاف نے ملک گیر تحریک چلائی،لاہور،فیصل آباد،کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھر پور احتجاجی پروگرام کئے گئے اور حکومت کو بار بار کہا گیا کہ صرف چار حلقے کھول دیں جن میں دھاندلی ہوئی لیکن میاں نواز شریف اور انکے وزراء نے نوٹس نہیں لیا اور کہا کہ حلقے کھولنا ہمارا کام نہیں ،الیکشن کمیشن کا کام ہے،پھر عمران خان نے اسلا م آباد میں لانگ مارچ کی کال دی چودہ اگست سے قبل پورے ملک کو کینٹینر لگا دیئے گئے۔

ٹرانسپورٹروں کو پکڑ لیا گیا،تمام شہروں کے داخلی و خارجی راستے بند کر دئے گئے تا کہ عمران خان اسلام آباد نہ جا سکیں لیکن حکومت کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ خان صرف جیت کا سوچتا ہے شکست کا اس نے کبھی سوچا ہی نہیں،کچھ غلطیاں اس نے ضرور کی ہیں جن کی وہ اصلاح کرلے گا ،ان غلطیوں کا اس نے متعدد مواقع پر بھی ذکر کیا ،حکومت نے سوچا تھا کہ جب شہر بند کر دئے جائیں گے کوئی نہیں نکلے گالیکن خان کے ٹائیگر نکلے اور تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اسلام آبا د پہنچے ،شدید گرمی و حبس میں ،تیز ترین بارش میں بھی ان ٹائیگرز کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور وہ عمران خان کے ساتھ رہے۔

اب عمران خان کے دھرنے کو ایک ماہ سے اوپر کا عرصہ گزر گیا ہے حکومت سے مذاکرات بھی ہوئے لیکن خان نے زمان پارک سے نکلتے ہوئے جو بات قوم سے کہی تھی ابھی تک اسی پر ڈٹا ہوا ہے کہ میں نواز شریف کا استعفیٰ لے کر آئوں گا،حکومت یہ بات ماننے پر تیار نہیں،پارلیمنٹ میں عیاشی کرنے والے سارے اکٹھے ہوگئے،گرفتاری کی دھمکیاں دی گئیں،کارکنوں پر لاٹھی چارد،شدید آنس گیس کی شیلنگ کی گئی لیکن خان و کارکنان کے حوصلے پست نہیں ہوئے ،وہ قوم سے کئے گئے اپنے وعدے کو نبھانا چاہتا ہے کیونکہ اس ملک میں صرف دو خاندانوں کی بادشاہت ہے شریف اور بھٹو خاندان ،اب تک انہی کی حکومتیں آئیں اور اگر تحریک انصاف تحریک نہ چلاتی تو پھر بھی انہی کی آنی تھیں۔

PTI

PTI

اب تحریک انصاف کی تحریک نے عوام میں شعور بیدار کیا ہے ،عوام میں یقینی طور پر تبدیلی آئی نہیں آ چکی ہے اور اس بات کا ثبوت رحمان ملک اور ڈاکٹر رمیش کمار کو جہاز میں داخل نہ ہونے دینا ایک واضح ثبو ت ہے،وی وی آئی پیز کے لئے ہمیشہ جہاز لیٹ ہوا کرتے تھے لیکن عوام نے ایسا کام کیا شاید اب کسی کو بھی لیٹ ہونے کی ہمت نہیں ہو گی،لاہور میں مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی افضل کھوکھر نے تیز سپیڈمیں گاڑی چلائی تو وارڈن نے اسے روک لیا اور چالا ن کر دیا یقینا یہ تبدیلی عمران خان کی وجہ سے آئی جنہوں نے پاکستانی قوم کو غلامی سے نکالنے کے لئے کینٹینر میں سونا پسند کیا اور کارکنان کی بھی حوصلہ افزائی کی۔

تحریک انصاف کی انصاف کی دہائی نے عوام کو جگایا اور ایک ماہ سے جاری تحریک نے عمران خان کا نعرہ ”گونواز گو” گھر گھر تک پہنچا دیا ہے۔وزیراعظم میاں نواز شریف جب آزاد کشمیر میں گئے تو گو نواز گو سننا پڑا،سرگودھا میں سیلاب متاثرہ علاقے کے دورے کے لئے گئے تو وہاں بھی گو نواز گو کے نعروں کی گونج سنائی دی ،بعد ازان ملتان میں بھی گو نواز گو کے نعرے سنائی دیئے۔پشاور میں مسلم لیگ(ن) کے ہی کنونشن میں گو نواز گو کے نعرے لگے۔ پیر صابر شاہ اپنے خطاب میں گو نواز گو کے نعرے لگا بیٹھے، جس پر کارکنوں نے بھی جواب میں گونواز گو کا نعرہ لگا دیا۔ دھرنا دینا سب کا آئینی اور قانونی حق ہے، پاکستان کی تاریخ میں یہ دھرنے سب سے زیادہ منظم اور دیرپا دھرنے ہیں جو تاحال جاری ہیں، ملک کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے، اس حوالے سے ان کا موقف 100 فیصد درست ہے، دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی ہے۔

اس چیز کو سب مانتے ہیں، حتٰی مسلم لیگ نون بھی تسلیم کرتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے، خود وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں تسلیم کیا ہے کہ ہر حلقے میں ساٹھ سے ستر ہزار ووٹوں کی تصدیق نہیں ہوسکتی۔ اس سے یہی مراد ہے کہ ساٹھ سے ستر ہزار ووٹ جعلی ہیں۔ اس لئے حکومت کے باقی رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ پارلیمان میں موجود جماعتیں کہتی ہیں کہ ہم جمہوریت کی خاطر نواز شریف کے ساتھ ہیں، جب جمہوری عمل میں ہی دو نمبری ہوئی ہے تو آپ کا ساتھ دینا اور وہ بھی ایک غیر قانونی حکومت کا ساتھ دینا، اس کا کیا مطلب ہے۔؟

اس کی مثال ایسی ہے کہ سب کہیں کہ چوری ہوئی ہے اور جب چور پکڑا جائے تو اس کے ساتھ کھڑے ہوجائیں اور اس کو بچائیں، ان حالات میں ملک کی بہتری اور استحکام کیلئے آزاد تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے، ان کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ جب تک کمیشن اپنی رپورٹ نہیں دیتا اس وقت تک وزیراعظم صاحب کو سائیڈ پر ہوجانا چاہیے، یہ چیزیں طے ہیں کہ اگر وزیراعظم اپنے عہدے پر بیٹھے رہے تو پھر تحقیقات اثر انداز ہوں گی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کہتے ہیںکہ پور ملک میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے، لوگ اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، حکمران بیرون ملک سے قرضے لے لے کر عیاشیاں کر رہے ہیں اور اس قوم پر اضافی بوجھ ڈال رہے ہیں، خیبر پختونخواہ میں تبدیلی کا آغاز کر دیا ہے۔

چند سالوں میں یہ صوبہ باقیوں سے آگے نکل جائے گا، عوام کو خود نہیں یقین آ رہا کہ کتنی بڑی تبدیلی آ چکی ہے، پاکستان بدل چکا ہے، ہم خوش نصیب ہیں کہ یہ قوم جاگ گئی ہے اور یہ لوگ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان حکمرانوں کا مقصد اس قوم کی خدمت کرنا نہیں بلکہ اپنے پیسے بڑھانا ہے اور اب عوام ان کے خلاف باہر نکل آئی ہے اور ان سے آزادی حاصل کر کے ہی رہیں گے۔ قائداعظم نے اپنے لئے فیکٹریاں بنانے کیلئے پاکستان نہیں بنایا تھا۔ وہ جمہوریت کو تسلیم کرتے تھے۔ نوازشریف اپنا موازنہ قائداعظم سے نہ کریں، وہ ٹیکس دیتے تھے، نوازشریف نہیں دیتے اگر قوم کو حقوق پتہ چل جائیں تو ظلم برداشت نہیں کرتی۔ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو ہر کسی کو انصاف ملتا لیکن ایسا نہیں ہے۔

قانون صرف غریبوں کے لئے اور امیروں کے بچے قانون سے بالاتر ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں انصاف نہ ہونے کی وجہ سے ترقی نہیں ہو رہی،جب انصاف ہو گا تو معیشت میں بھی بہتری آئے گی،جرائم میں کمی آئے گی،پر امن پاکستان ہو گا تو سرمایہ دار پاکستان کا رخ کریں گے پھر پاکستان خوشحال ہو گا اور ترقی کی جانب عمران خان کی قیادت میں گامزن ہو گا،قوم کو انصاف کی اس تحریک میں اور غلاموں سے نجات حاصل کرنے کے لئے بھرپور ساتھ دینا چاہئے۔

Bilal Ahmad

Bilal Ahmad

تحریر:بلال احمد