تحریر : آخونزادہ عبدالسبحان 4۔مارچ 2017ء کو آفس سے جلد چٹھی ملنےکے بعد حاجی کیمپ اڈے پہنچا مردان کی بس میں بیٹھا، سفرکی دعا پڑھی اور گاڑی منزل کی طرف رواں دواں ہوئی۔ حسب معمول سافٹ لائبریری سے مطالعہ شروع کیا۔ گاڑی میں سفر کے دوران مطالعہ کرنے سے کافی مسائل حل ہوجاتےہیں۔ ایک تو سفر جیسی مصیبت آسانی سے گزر جاتی ہے، دوسرے وقت بھی قیمتی بن جاتا ہے۔سفر کے دوران لوگ مختلف طریقوں سے وقت گذاری کرتے ہیں۔ کچھ گاناسننے جیسے قبیح عمل میں مبتلا ہوتے ہیں تو کچھ اتنی اونچی آواز میں گپیں ہانک رہے ہوتے ہیں، کہ تمام ہمسفروں کو تکلیف میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ اس لیے سفر کے دوران کوئی اچھی کتاب اپنے پاس رکھنی چاہیے، تاکہ وقت کی بچت ہو۔ اس ٹیکنالوجی کے دور میں تو ہزاروں کتابیں سافٹ فارم میں بھی دستیاب ہیں کیوں نہ اپنے اسی وقت کو قیمتی بنالیاجائے۔ اب آتے ہے اصل مسئلے کی طرف بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔
القصہ ، جوں ہی رشکی انٹرچینج پر ہماری گاڑی رُکی ،میں نے سراُٹھایا تو تقریباً پینتالیس منٹ گزر چُکے تھے۔ اس دوران میں اچھا خاصہ مطالعہ بھی کرچکاتھا۔ گاڑی آگے روانہ ہوئی تو تھوڑی دیر کے لیے میں نےسر سیٹ پر رکھا کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ گاڑی کافی ٹائم سے رُکی ہوئی ہے ۔ ادھر ادھر نظریں دوڑائیں ، گاڑیوں کی لمبی قطاروں کے بیچ ایک جگہ پر لوگوں کا کافی ہجوم نظر آیا۔ مسافر جاۓ وقوعہ پر ماجرا معلوم کرنے جانے لگے۔ پانچ منٹ میں بس مکمل طور پر خالی ہوچکی تھی۔ میرے آگےپیچھے دائیں بائیں سیکڑوں گاڑيوں کی لائنیں لگی تھیں۔ہرطرف قیامت کا سا شور اور ٹائر جلنے کا دھواں تھا۔ تھوڑی انتظار کے بعد ڈائیور گاڑی کا انجن بندکرکےنیچے اُترا تاکہ صورتحال معلوم کی جاسکے۔
ڈائیور اور مسافروں نے کچھ دیر بعد واپس آکراطلاع دی کہ کسی قتل کے باعث روڈ بند کیا گیا ہے۔ میں جب جائے وقوعہ پر پہنچا تو دیکھا کہ روڈ پر ٹائرجل رہے ہیں اور سیکڑوں مشتعل نوجوانوں کا جمگھٹا وہاں موجود پایا۔ایک طرف پولیس کے چند نوجوان بے بس وخاموش تماشائی بنے کھڑے تھے۔ راستے میں بڑے بڑے پتھر پڑے دیکھا۔ ایک باپردہ عورت گود میں اپنا شیرخوار بچہ لیے ہوئے وہاں سے گزر رہی تھی کہ اچانک راستے میں رکھے ہوئے پتھر سے ٹکرا کے گر پڑی اور بچہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر چند قدم آگے جا پڑا۔ جتنی تکلیف اس معصوم بچے اور اُس باپردہ خاتون کوہوا وہ منظرمیں بھی دیکھتارہا اور وہاں پرموجود لوگوں نے بھی دیکھا ہوگا۔جتنی تکلیف اس معصوم بچے اور اس ماں کو ملی اس کا ہم اندازہ نہیں کرسکتے۔
واقعہ یہ پیش آیاتھا کہ پولیس کے نوجوان نے دوکان سے سودا سلف لیا اور پیسے نہ دینے پر باہمی تکرار ہوئی بات زدوکوب تک جا پہنچی ۔آخر دوکان دار نے پولیس والے کومارا ۔اس کی پاداش میں پولیس والے نے نفری جمع کرا کے دوکاندار کو مار مار لہولہان کردیا۔ اس پر احتجاج کرتے ہوئے لوگوں نے روڈ بلاک کیا اور عورتوں، بوڑھوں اور مریضوں نے تکالیف برداشت کیں۔ تفصیلات معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ زیادتی پولیس کی طرف سے ہوئی۔ پہلے تو پولیس والوں کو ایسا کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ دوسرے اگر پولیس والوں کی طرف سے زیادتی ہوئی تھی تو دوکاندار کوچاہیے تھا کہ وہ قانون پر ہاتھ اٹھانے سے پہلے قانونی راستہ ڈھونڈ لیتا تو اتنے مسائل پیدا نہ ہوتے ۔ لیکن افسوس ناک بات یہ کہ جب قانون کے رکھوالے ہی قانون کی دھجیاں اڑا دیں تو وہاں عام لوگوں سے کیا گلہ۔