اب قانون کو قانون پڑھایا جائیگا

Law

Law

تحریر : شیخ خالد زاہد
ایک مشہور کہاوت ہے کہ چت بھی میری اور پٹ بھی میری۔موجودہ دور میں ہمیں تو ہر طرف اس کہاوت کا عملی مظاہرہ ہوتا دیکھائی دے رہا ہے یعنی اقتدار بھی اپنے پاس ہی ہے اور احتجاج بھی خود ہی کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اپنی رہی سہی عزت کو سنبھالنے کی کوشش میں کیا جا رہا ہے۔ یہاں جماعت کی عزت بھی فرد واحد کی عزت سے بالواسطہ مشروط ہے اگر جناب گئے تو پھر جماعت بھی گئی۔ دراصل یہی پاکستانی سیاست کا خاصہ ہے یعنی سیاسی جماعتیں کسی بھی سول ڈکٹیٹر کی ذد میں ہی پلتی بڑھتی ہیں اور جب یہ صاحب کچھ زیادہ ہواؤں میں اڑنا شروع کرتے ہیں تو ویسے ہی اصلی ڈکٹیٹرز حرکت میں آجاتے ہیں مگر اب کی بار یہ سمجھنا ذرا مشکل نظر آرہا ہے کہ کیا واقعی ڈکٹیٹرز حرکت میں آئے ہیں یا پھر آپ کے اپنے کرتوت کھل کر ساری دینا کہ سامنے آگئے اورشائد کوئی غیبی طاقت بھی آپکے خلاف استعمال ہوئی ہے۔

وقت بدلنے کا نام ہی نہیں لے رہا عوام ، عوام ہی ہے جبکہ خواص اور خاص ہوئے جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں آجکل جو اقتدار میں ہے وہی حزب اختلاف بھی بنا ہوا ہے یعنی سیاست اپنے نئے رنگ ڈھنگ کیساتھ جلوہ افروز ہے ۔یہاں ہر فرد شرافت سے اپنی اپنی ذمہ داریاں نباہ رہے ہیں کیونکہ ہمارے یہاں شرافت کے معنی کچھ مختلف ہیں ۔ یہاں ووٹریا عوام اسی وقت یاد آتی ہے جب یاتو انتخابات کا دور دورہ ہو یا پھر قانون جاگ جائے اور کوئی ایسا فیصلہ سنا دے جس میں صاحب اقتدار کو نااہل قرار دے دیا جائے اور وہ نااہل سیاست دان یا اعلی حکومتی عہدے دار درپردہ اس فیصلے کیخلاف ریلیاں نکالنے کیلئے عوام کو بلالے۔ اگر ہمارے یہاں پاکستان میں قانون کی بالادستی ہوتی تو اس قسم کی ریلی کا کوئی جواز نہیں بنتا جو کہ وزیر اعظم صاحب کو نااہل قرار دیئے جانے پر نکالی جائے جوکہ یقیناًقانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف تھی، ریلی کا واضح مقصد جو سمجھ آتا ہے وہ یہ ہی ہے کہ فیصلہ ہمیں قبول نہیں ہے اور ہم ایسے کسی فیصلے کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔تین دفعہ کے سبکدوش کئے گئے وزیر اعظم صاحب کو اپنے عہدے کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہوسکایا یوں کہوں کہ وہ اس عہدے کے ایک بار بھی اہل نہیں تھے۔ ویسے تو پاکستان کا کوئی بھی سیاست دان اس ملکی اہم ترین عہدے پر تشریف رکھنے کا اہل نہیں دیکھائی دیتااگر ایسا ہوتا تو پھر کسی قومی مفاہمتی آئین کی کیا ضرورت تھی۔ الیکشن کمیشن تمام آئینی کاروائی مکمل کرے اور شفاف طریقے سے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کرے تو شائد ہی کوئی سیاست دان انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نکلے ۔ ہمارے اداروں میں سیاسی بھرتیاں کرنے کا بنیادی مقصد ایک یہ بھی ہے جب ایسا کڑا وقت آجائے تو ایسے لوگوں کو استعمال کر کے وہ مشکل وقت نکالا جائے یا پر اس مشکل وقت کو کیش کیا جائے۔ پاکستان میں قانون اور قانون کا نفاذاور عمل داری صرف اور صرف ان لوگوں کیلئے جن کانا تو کوئی اثر و رسوخ ہے اور نا ہی مال و دولت کی فروانی۔

جمہوریت میں منتخب نمائندے اسمبلیوں میں بیٹھ کر ملک کی بقاء اور سالمیت کیلئے ، چوری اور بدعنوانی روکنے کیلئے اور ملک کے وسیع تر مفادات کیلئے قانون سازی کرتے ہیں اور مروجہ قوانین میں بہتری کیلئے ترامیم لاتے ہیں ۔ ان امور پر اسمبلی میں موجود نمائندوں کا فرض ہے کہ وہ جماعتی اور ذاتی مفاد سے قطع نظر ملک کی خاطر اور اپنی حب الوطنی کے ثبوت کی خاطر بھر پور حصہ لیں اور عوام تک صحیح اور غلط جوجیسا بھی ہو پہنچائیں۔ پاکستان میں قوانین میں ترامیم نظریہ ضرورت کے تحت کی جاتی رہی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں نے اپنے لئے بدعنوانی کر کے بچنے کیلئے آسانی سے بچ نکلنے کیلئے آئین سازی پر زور دیا ہے۔ لیکن کچھ ایسی بنیادی چیزیں ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں رہا جیسے کہ دبے دبے لفظوں میں ۶۲ اور ۶۳ میں ترمیم کی سرگوشیوں کا شور سنائی دے رہا ہے۔ یہ وہ آئین ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ضمانت ہے اگر اس آئین کو نکال دیا جائے یا اسے توڑ مڑوڑدیا جائے توپاکستان کے آئین سے اور نام سے لفظ اسلامی کو بھی علیحدہ کرنا پڑے گا۔ حضرت اقبال نے بہت واضح الفاظ میں سمجھا دیا تھا کہ جدا ہوسیاست دین سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ہمارے ملک میں آج تک سیاست اور دین پر مشتمل حکومت قائم ہی نہیں ہوسکی۔ جس سے یہ پتہ چلانا مشکل نہیں ہے کہ ہم پاکستانی کس قسم کی ریاست چاہتے ہیں۔ اب کوئی سمجھے یا نا سمجھنا چاہے یہ اسکی اپنی مرضی ہے۔ پاکستان کو اسوقت ایسی سوچ سے دور رکھنا ہے جس سے یہ تاثر قائم ہوتا ہو کہ کوئی فرد یا جماعت آئین سے بالاتر ہے اور اپنے ذاتی مفادات کیلئے آئین کااستعمال کر سکتی یا سکتا ہے۔ ایسا نا کرنے دینے پر ملک ایک بار پھر تقسیم کی جانب چل پڑے گاجوکہ اب قطعی ممکن نہیں ہے۔

کیا اسے ہم خودغرضی کی انتہا نہیں کہہ سکتے کہ جو قانون آپکا راستہ روکے یا آپکو بدعنوانیوں پر روکے یا پھر اسلامی اقدار سے تصادم پر دھر لے تو آپ اسے مشکوک ثابت کرنا شروع کردیںیہیں تک بس نہیں بلکہ عوام کو بھی ورغلائیں اور آئین سے تصادم کی سازشیں شروع کردیں۔قانون دانوں کو قانون پڑھانے اور سمجھانے کی کوشش کی جانے لگے۔ قانون دانوں کو قانون کی بقاء کیلئے بالادستی کیلئے تو ایک ہونا پڑے گا۔ جب کوئی پاکستان پر میلی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر انگلی اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو ہم پاکستانی ایسے متحد ہوجاتے ہیں کہ وہ میلی آنکھ اٹھنا ہی بھول جاتی ہے اور وہ انگلی اٹھنے کی جرات ہی نہیں کر پاتی، تو پھر قانون بھی ہمارے لئے کسی مذہب سے کم نہیں ہے۔

تمام قانون دانوں اور ملک سے مخلص سیاست دان جو ملک کو اپنی ذاتی ملکیت نا سمجھتے ہوں ایسے اقدامات پر سختی سے نوٹس لیں، آواز اٹھائیں اور عوام آنے والے دنوں میں اپنے ان نمائندوں کو منتخب کریں جو نا صرف انکی زندگیاں بہتر بنانے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کریں بلکہ اس ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کا عزم رکھتے ہوں۔ جن معزز سیاستدانوں نے اعلی عدلیہ اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم پر اعتراض اٹھائے ہیں وہ یقیناًتوہین عدالت کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں اور وہ تمام لوگ جو اپنے پیارے وطن کے خلاف باتیں سننے کیلئے گھروں سے نکلے انکو بھی سوچنا اور سمجھنا چاہئے کیا پاکستان کا قانون اور قانون دانوں کو یہ لوگ قانون پڑھائینگے جن کا تعلیم بھی کچھ نہیں بگاڑ سکی۔

Sh. Khalid Zahid

Sh. Khalid Zahid

تحریر : شیخ خالد زاہد