اسلامی ممالک شروع ہونے والے انقلاب میں مسلمانوں کوہی زندہ جلا جا رہا ہے اور فائدہ غیر مسلم اٹھا رہے ہیں اور یہ انقلاب پاکستان میں بھی آنا والا ہے۔اس کا فائدہ کس کو ہو گا۔ اس کے بارے میں قبل ازوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔لہذاجناب قائدانقلاب پروفیسر علامہ ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان میں تشریف لاچکے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہو نا چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو انقلاب آفریں لیڈر سمجھتے ہیں لیکن ہم یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ جو شخص اپنے دعووں کا پاس رکھنے کا اہل نہ ہو اور قانون کا احترام کرنے کی توفیق نہ رکھتا ہو وہ کسی معاشرے میں مثبت اور تعمیری روایت کی بنیاد کیوں کر ڈال سکتا ہے۔ علامہ طاہر القادری نے اس خود ساختہ مفروضے کی بنیاد پر کہ پاکستان پہنچتے ہی انہیں قتل کروا دیا جائے گا کل لندن میں پریس کانفرنس کے دوران اپنے جاں نثار کارکنوں کو متنبہ کیا تھا کہ خبردار اگر مجھے مار دیا جائے تو تم نے قانون ہاتھ میں نہیں لینا۔ نہ ہی سرکاری املاک پر حملہ کر کے انہیں تباہ کرنا۔ ہم امن کے داعی ہیں اور قاعدے اور قانون کے مطابق انقلاب لائیں گے۔
ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی بحال کروانے کے دعویدار پاکستان عوامی تحریک کے رہنما علامہ طاہر القادری قانون ، روایت اور اصولوں کو پامال کرتے اور بزعم خود حکومت کو دھول چٹواتے سرخرو اور خوش و خرم لاہور اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ اب انہیں اپنے کارکنوں کو خوشی میں بھنگڑے ڈالنے کا مشورہ دینا چاہئے۔اس طرح کم از کم پولیس اہلکار اور سرکاری املاک اس بے مثال لیڈر کے ناراض اور پرجوش کارکنوں کے حملوں اور تباہ کاری سے محفوظ رہ سکیں گی۔ اگرچہ پاکستان کے مدبر، دانشور، ممتاز مبصر اور طاہر القادری نے حکومت کو کتنی قلابازیاں دیں اور اس سیاسی جھٹکے کے نتیجے میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی حکومتیں کتنی کمزور ہو گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پند و نصیحت کی ایک طویل فہرست بھی حکومتی نمائندوں کو تھما دی جائے گی تا کہ بوقت ضرورت کام آ سکے۔
عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کے کارکن جنہیں ان کے رہنما اور روحانی پیشوا نے پرامن رہنے کی ہدایت کی تھی ، راولپنڈی کی سڑکوں پر اور اسلام آباد ائر پورٹ کے گرد و نواح میں ڈنڈوں اور پتھروں سے لیس پولیس پر حملہ آور ہو گئے۔ لاہور سانحہ کے سیاسی نقصان کے پیش نظر پولیس کو اپنے دفاع میں لاٹھی چارج کے سوا کوئی دوسرا حربہ استعمال کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ اس لئے طاہر القادری کے عشاق نے محبت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پولیس کی خوب دھنائی کی۔ ایک سو سے زائد پولیس اہلکار اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ جن میں چند کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
دوسری طرف اسلام آباد کی بجائے امارات ائر لائنز کا طیارہ چونکہ لاہور اتار لیا گیا تھا ، اس لئے امن اور قانون پسند طاہر القادری نے جہاز پر ہی دھرنا دے دیا۔ انہیں یہ احساس بھی نہیں رہا کہ یہ ایک غیر ملکی فضائی کمپنی کا طیارہ ہے اور اس حرکت سے نواز شریف اور شہباز شریف نہیں بلکہ پاکستان بدنام ہو گا۔ انہوں نے جہاز چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اور مطالبہ کیا کہ فوج کے کور کمانڈر آ کر انہیں اپنے ہمراہ لے جائیں ورنہ انہیں مار دیا جائے گا۔ پانچ چھ گھنٹے تک یہ ڈرامہ چلتا رہا۔ اس دوران متحدہ عرب امارات نے حکومت پاکستان سے اپنے طیارہ واگزار کروانے کی درخواست کی۔ اسلام آباد ، راولپنڈی اور لاہور کی سڑکیں ٹریفک اور ہجوم سے اٹی رہیں۔ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان جی ٹی روڈ کے علاوہ موٹر وے بھی بلاک تھی۔ فیصل آباد کی طرف سے آنے والی ساری ٹریفک بھی واپس کر دی گئی۔ لاکھوں لوگوں کو شدید گرمی کے موسم میں سارا دن اپنے معمولی کام سرانجام دینے کے لئے شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ایک غیر ملکی کمپنی کے طیارے پر یوں قبضہ کرنا ایک طرح سے جہاز اغوا کرنیکے زمرے میں آتا ہے۔
اس کے علاوہ جہاز پر سوار اپنے فدائن کے علاوہ دیگر مسافروں کوبھی یرغمال رکھا گیا۔ ائر پورٹ اتھارٹیز کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اگر کوئی مسافر جہاز چھوڑنے سے انکار کر دے تو اسے کس طرح جہاز سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ حکومت لاچار اور سڑکوں پر پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کا راج تھا اور ان کا لیڈر راجہ بن کر پاکستان کے متحرک میڈیا کے ذریعے احکامات جاری کرنے میں مصروف تھا۔ کور کمانڈر سے ملاقات کا مطالبہ پورا نہ ہوتے دیکھ کر طاہر القادری نے چھ مطالبات پیش کئے جنہیں پورا ہونے تک جہاز چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ ان میں ذاتی محافظوں کو جہاز تک لانے کی سہولت ، بلٹ پروف گاڑیوں کی فراہمی ، میڈیا کی براہ راست کوریج ، گورنر پنجاب ذاتی طور پر ساتھ سفر کریں تا کہ موصوف پر حملہ نہ ہو سکے اور تحریک کے تمام کارکنوں کی فوری رہائی کے مطالبے شامل تھے۔
Tragedy Model Town
مبصرین کے مظابق علامہ طاہر القادری نے اپنی دینی حیثیت اور مرتبے اور سیاست کو ملا کر جو آمیزہ تیار کیا ہے اس کی وجہ سے چند لاکھ لوگ انہیں خدائی فوجدار کے منصب پر فائز کرتے ہیں۔ اسی گمرہی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طاہر القادری اپنا سیاسی قد اونچا کرتے ہوئے میاں فیملی سے پرانی ذاتی رنجشوں کا بدلہ لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے۔ منگل کو ماڈل ٹاون میں رکاوٹیں ہٹانے کے نام پر پولیس کی بربریت نے قادری کی قوت اور اپیل میں وقتی طور پر اضافہ بھی کر دیا ہے۔اس لڑائی میں طاہر القادری اور میاں برادران اپنے اپنے طور پر کامیاب ہوئے۔ میڈیا کے وارے نیارے ہو گئے کہ انہیں چند گھنٹے ٹیلی کاسٹ کرنے کے لئے ایک فری شو فراہم کر دیا گیا۔ اس تصادم میں بس پاکستان ، قانون اور اس ملک میں بسنے والے عوام کے خواب چور چور ہوئے ہیں۔
دوسری جانب علامہ طاہر القادری اس قسم کا ایک انقلابی شو گزشتہ سال جنوری میں بھی منعقد کر چکے ہیں۔ اس وقت وہ لاہور سے اپنے جان نثاروں کے ساتھ اسلام آباد فتح کرنے نکلے تھے۔ تین روز تک وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دینے کے بعد سابقہ صدر آصف علی زرداری کی طرف سے اسلام نافذ کرنے اور عوام کے حقوق بحال کرنے کے وعدے پر انہوں نے دھرنے کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے اسے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔عوامی تحریک کے قائد ایک دہائی قبل ہی یہ جان چکے تھے کہ انتخابات کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ اس لئے ان برسوں میں انہوں نے کینیڈا میں بیٹھ کر یہ ریسرچ کی ہے کہ ایسا کون سا طریقہ اختیار کیا جائے کہ انتخاب بھی نہ لڑنا پڑے اور ایک بڑا لیڈر بننے کا شوق بھی پورا ہوتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ برس مئی میں منعقد ہونے والے انتخابات کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں انقلاب جمہوریت کے ذریعے نہیں بلکہ جمہوری حکومت گرا کر لایا جا سکتا ہے۔ جنوری 2013ء میں انہوں نے اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت کو دھمکا کر اقتدار میں رہنے کی ” اجازت ” مرحمت کر دی تھی۔
یوں بھی وہ حکومت نئے انتخابات کی وجہ سے اقتدار سے علیحدہ ہونے والی تھی۔ اس لئے اب وہ نئی تیاری اور نئے دم خم کے ساتھ تازہ دم جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔انہیں اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے بعض آزمودہ اور حریص سیاستدانوں کی حمایت پہلے ہی حاصل ہو چکی ہے۔ تاہم انہیں اصل کمک پنجاب پولیس نے بہم پہنچائی ہے۔ جس نے منگل کے روز عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ پر دھاوا بولا اور وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت کے ” برعکس ” طاہر القادری کے دس کارکنوں کی جان لے لی۔ اب یہ دس لاشیں علامہ صاحب کے ہاتھ میں ایسے خونی علم کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں جن کے بل بوتے پر وہ ہر رکاوٹ کو گراتے ہوئے اقتدار کے اعلیٰ ایوان تک پہنچنے کا مصمم ارادہ کئے ہوئے ہیں۔