تحریر : ملک ممریز خان ایک وقت تھا جب ہم چھوٹے بچے تھے گاؤں سے شہر تک اکثر لوگ پیدل سفر کرتے اور کچھ لوگ تانگہ میں بیٹھ کر شہر جاتے اور اُن میں بعض لوگ سپیشل تانگہ کرتے کہ تمام سواریوں کا کرایہ وہ خود ادا کرتے کسی کے پا س سائیکل ہوتی شہروں میں آبادی کم تھی لیکن قانون کی حکمرانی موجود تھی مجھے یاد ہے کہ رات کو دور سے کوئی لائٹ نظر آتی تو پتہ چلتا کہ تانگہ آرہا ہے تانگہ کے دونوں پہیوں کے درمیان لائٹ لگی ہوتی اگر کوئی بغیر لائٹ تانگی چلاتا تو باقاعدہ اُس کا چالان کیا جاتا اس لیے بغیر لائٹ کے تانگہ چلانا اور چالان کا خوف قانون پر عملداری کا ذریعہ بنتا جس کی وجہ سے حادثات ہونے کے امکانات کم ہوتے اسی طرح سائیکل بھی اگر کوئی رات کو چلاتا تو اُسکے ساتھ لائٹ لازمی لگی ہوتی اور اگر بغیر لائٹ کے کوئی سائیکل چلاتا تو چالان کیا جاتا۔
اس کے علاوہ ایک اور محکمہ جانوروں کے متعلق بھی تھا جس کا کام جانوروں پر بے رحمی کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی کرنا ہوتی اور باقاعدہ اٹک میں بھی ایک انسپکٹر بے رحمی موجود تھا جو لوگ بیمار یا کمزور گھوڑے کو تانگہ میں چلاتے اُس کا بھی چالان کیا جاتا اس طرح گدھا گاڑی یا گدھے پر زیادہ وزن ڈالنے والے کے خلاف بھی کاروائی ہوتی کمزور اور بیمار جانوروں کا بھی خیال رکھا جاتا تھا دوردزار کے دیہات سے بھی لوگ پیدل یا گھوڑوں کے ذریعہ شہر تک کا سفر کرتے کیونکہ سڑکوں کی سہولت موجود نہیں تھی اور نہ ہی لوگوں کے پاس گاڑیاں تھیں اگر دوردراز کے دیہات میں کوئی بیمار ہو جاتا تو چارپائی پر مریض کو ڈال کر چار سے چھ افراد اُٹھا کر اُسے پیدل لاتے اور ڈاکٹر کو چیک کرانے کے بعد اور ادویات لے کر پھر واپس لے کر جاتے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جہاں ترقی ہوتی گئی سڑکوں کی تعمیر ہوگئی وہاں پیسوں کی ریل پیل بھی ہو گئی گاڑی اور موٹرسائیکلوں بہتات ہو گئی شہروں کی آبادی بھی بڑھتی گئی اور لوگوں کو سہولتیں بھی میسر ہو تی گئیں اور اسی طرح لوگوں کے لیے بہت آسانیاں پیدا ہوئیں تعلیم حاصل کرنے کارجحان پیدا ہوا فاصلے سمٹ گئے گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہونا شروع ہوگیا۔
Traffic Wardens
سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل آگئے اور تانگوں کی جگہ شروع میں سوزوکی اور بعدازاں رکشے آگئے اٹک جیسا خوبصورت شہر جس کا پرانا نام کیمبل پور تھا اور جس کی سڑکیں گلیاں صاف ستھری اور کھلی تھیں نہ ہی ٹریفک کا ہجوم تھا او ر نہ ہی سڑکوں پر تجاوزات کی بھر مار تھی پرانے لوگ ایک دوسرے کو ذاتی طور پر جانتے تھے اور ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک ہوتے غمی خوشی میں شریک ہونے کا رواج آج بھی بدستور دوسرے شہروں کی نسبت بہت زیادہ ہے لیکن آج اٹک میں تجاوزات کی بھر مار ہے ہر روز اعلان ہوتے ہیں تجاوزات کا خاتمہ کر دیا جا ئے گا لیکن عمل درآمد ندارد سڑکوں پر جہاں لوگوں کا پیدل چلنا محال ہے وہاں گاڑیوں کی غلط پارکنگ اور ٹریفک کے قانون پر عمل درآمد کا نہ ہونا عوام کی پریشانی کا باعث ہے اُس کی وجہ شاید ادارے کمزور ہو گئے ہیں یا ترجیحات بدل گئی ہیں حکومت اور اداروں کا اصل کام عوام کو سہولیات پہنچانا ہے عوام کو دکھ اور تکلیف سے بچانا ہے لیکن شاید اس طرف توجہ نہیں دی جارہی ٹریفک پولیس ڈیوٹی دیتی نظر آتی ہے کچھ اپنے فرائض بخوبی سر انجام دیتے ہیں جبکہ اکثر ٹریفک اہلکار چوکس نظر نہیں آتے اور شاید اُن کو کسی سینئر آفیسر کا گھر ہے اور نہ ہی عوام کی تکلیف اور دکھ کا احساس بلکہ بعض ٹریفک اہلکار وں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ موٹر سائیکل اور گاڑیوں کے کاغذات چیک کرنے کے فرائض بخوبی نبھاتے ہیں۔
شاید اُن کا کام ہی چالان کا ٹارگٹ پورا کر نا ہے ایسے لگتا ہے کہ کوئی سینئر آفیسر موجود نہ ہے یا اُن کی توجہ اس طرف نہیں ہے جس کا دل آئے جہاں گاڑی پارک کر دے نہ ہی ڈرائیور حضرات کو چالان کا خوف ہے اور نہ ہی دوسرے لوگوں کی دکھ اور تکلیف کا احساس ہے کچھ عرصہ قبل اٹک میں غلط پارکنگ گاڑیوں کو اُٹھا لیا جاتا تھا اور بہتری آرہی تھی لیکن یکدم یہ سلسلہ بھی بند ہو گیا ٹریفک کے سینئر افسران کو اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ اپنے عملہ کو وقتاََ فوقتاََ چیک کریں اور انہیں احساس دلائیں کہ آپ کا کام عوام کی تکلیف اور پریشانی کو دور کرنا ہے نہ کہ زیادہ ایسے چوک یا روڈ جہاں ٹریفک بند ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔
وہاں پر چوکس عملہ مکمل کریں تاکہ رکاوٹ کا سدباب ہو سکے بسال روڈ پر پھاٹک کھلی ہونے کے باوجود رکشہ واے اور بعض گاڑیوں والے اپنی لائن تبدیل کرتے ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک بلاک ہو جاتی ہے بسال پھاٹک پر بھی صبح 8بجے سے لے کر شام 8بجے تک ڈیوٹی لگائی جائے اور جو بھی لائن تبدیل کر ے اور خلاف ورزی کرے اور عوام کے دکھ اور تکلیف کا باعث بنے اُس پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے اُس کا چالان کیا جا ئے اور اُس کے خلاف کاروائی کی جائے تاکہ جہاں عوام کو دکھ اور تکلیف سے بچایا جا ئے وہاں قانون کی حکمرانی بھی قائم ہو چونکہ اب بلدیاتی ادارے بھی وجود میں آچکے ہیں چیئرمین میونسپل کمیٹی ناصر محمود شیخ اور چیئرمین ضلع کونسل محترمہ ایمان طاہر صاحبہ کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے اور متعلقہ حکام کے ساتھ عوامی مسئلہ کو اُٹھانا چاہیے۔