اسلام آباد (جیوڈیسک) پٹرولیم مصنوعات سے متعلق کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ قانون کے بھگوڑے غیر رجسٹر ڈافراد عوام پر بوجھ ڈال رہے ہیں، سیلز ٹیکس وہ لوگ وصول کررہے ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے، 90 فیصد پٹرول پمپ غیر رجسٹرڈ ہیں، جنہوں نے انیس فیصد سیلز ٹیکس وصول کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔
بازار چلے جائیں تو ہر چیز کی قیمت بڑھ چکی ،جن چیزوں پر چھوٹ دی گئی ان کا تو نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا گیا،یہ ریمارکس چیف جسٹس نے پٹرولیم مصنوعات اور جی ایس ٹی میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ہے کہ پیٹرول مہنگا ہونے سے روزمرہ اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔
ہم اور آپ کمرے میں بیٹھے ہیں، لوگوں کو مہنگی چیزیں خریدنا پڑ رہی ہیں،سیلز ٹیکس تو وہ ٹیکس ہے جو حکومت کی جیب میں جائے گا، کاروباری حضرات کو کیا فائدہ؟ اگر یہ ٹیکس حکومت کی جیب میں ہی جانا ہے، تو صارف سے وہ وصول کر رہے ہیں جو ٹیکس ہی نہیں دیتے۔
چیف جسٹس نے مزید کہاکہ عام شہری تو ٹیکس دے دیتا ہے، غیر رجسٹرڈ لوگ ٹیکس جمع نہیں کراتے، پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ جن چیزوں کی قیمتیں بڑھ گئیں وہ کم نہیں ہوتیں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایف بی آر نے سروے کرایا کہ کون رجسٹرڈ نہیں اور غیر قانونی ٹیکس وصول کر رہا ہے۔
کیا ایف بی آر نے سیلز انسپکٹر سے اضافی ٹیکس کے بارے میں رپورٹ لی؟۔ ایف بی آرکے پاس کتنے سیلز انسپکٹر ہیں اور ان کا کام کیا ہے، قانون کے بھگوڑے غیر رجسٹرڈ افراد عوام پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہاکہ فنانس بل پر بحث ہو رہی ہے، جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ہو رہا ہے، کیوں لوگوں کی جیبوں پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے، جن چیزوں پر ٹیکس نہیں لگایا گیا وہ کیوں نہیں بتایا گیا، سارے ملک میں شور مچا ہوا ہے، چیزیں کنٹرول کی جائیں، لوگوں کو بتایا جانا چاہیے کہ کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس نہیں۔