جہاں قانون کی حکمرانی قائم ہو وہاں قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں ،چاہے کوئی امیر ہویاغریب،حاکم ہویا محکوم،قانون کی حکمرانی میں سب کو عدل وانصاف میسر آتا ہے اور کسی پر بھی ظلم نہیں ہوتا ۔لیکن جب قانون کی نظر میں سب برابر ہونے کی بجائے قانون سب کی نظر میں برابر ہوجائے تو پھر چاروں طرف ظلم کی فضا ہوتی ہے ،امیر ہویا غریب کسی کے ساتھ بھی انصاف نہیں ہوتا ،حاکم ومحکوم دونوں کے جان ومال محفوظ نہیں رہتے دونوں کی عزت وآبروکا تحفظ ممکن نہیں رہتا ۔جیسا کہ آج نصف سے زیادہ دنیامیں ہورہا ہے لوگوں نے قانون پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔
اگر کوئی قانون لوگوں کو جرم کرنے سے روکتا ہے تو اُسے نہ صرف توڑا جاتا ہے بلکہ اُسے ہمیشہ کے لیے ختم کرکے ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جو طاقتور کو تحفظ فراہم کریں ۔لیکن آپ جانتے ہیں کہ جب تک عدل وانصاف اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہو کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا ،جہاں ناانصافی ہوتی ہے وہاں انتقام عام ہوتا ہے اور انتقام لینے والا ظالم سے بھی زیادہ ظالم بن جاتا ہے ۔وطن عزیز میں پھیلی ناانصافی وبدامنی چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے کہ یہاں قانون سب کی نظرمیں برابر ہے یعنی کوئی بھی قانون پر عمل نہیں کرتا چاہے کوئی حاکم ہویا محکوم سب کے سب قانون کو پائوں تلے روند کر آگے گزر جاتے ہیں۔
قانون بڑے کام کی چیزہے اگر قانون کی نظر میں سب ایک ہوں ،اگر سب کی نظر میں قانون اپنا اپنا ہوتو بے کار چیز ہے ۔قانون قوم کو متحد اور مضبوط رکھ کر پورے معاشرے کو انصاف فراہم کرسکتا ہے لیکن قانون اپنااپنا کسی ایک شخص کو بھی انصاف فراہم نہیں کرسکتا ۔جس قوم کا ہرفرد قانون کو اپنا کھلونا تصور کرے اور ہر ادارے کو اپنے تابع کرنے کا خواہش مند ہواُس قوم کا خُداہی حافظ۔آپ سمجھ تو گئے ہوں گے میں کیا کہنا چاہتا ہوں اگر نہیں سمجھے تو میں پاکستانی قوم کی بات کر رہا ہوں۔
خیرات اور قرضہ ہم عالمی بینک اور امریکہ سے لیتے ہیں ،گیس ہم ایران سے لے رہے ہیں ،بجلی گھر ہم کرائے پر لیتے ہیں ،بسیں اور سڑکیں ہم ترکی سے لیتے ہیں ،اسی طرح کئی اور چیزیں ہمیں مختلف ممالک سے لینی پڑتی ہیں تو کیا ہم کہیں سے قانون پر عمل درآمد کرنے اور کروانے کی عادت قرض یا اُدھارنہیں لے سکتے ؟ یا پھر کسی بیرون ملک کمپنی کو 20.10سال کا ٹھیکہ کیوں نہیں دے دیتے ؟اگر ہم کوڑا کرکٹ اُٹھانے کا کام تُرکی کی کمپنی البراق کو دے سکتے ہیں توپھر قانون پر عمل درآمد کروانے والی کسی کمپنی کی تلاش کیوں نہیں کرتے؟ اِس وقت قانون کہاںہے اور کیا کر رہاہے۔
Muslim League N
یہ سوال میں نے مسلم لیگ ن اور لاہور کے ممتاز تاجر رہنماء رائو ناصر علی خان میئو کے سامنے رکھا تو انہوں جواب دیا کہ اگر سچ پوچھتے ہیں تو قانون بہت بیمار ہے اور پچھلے 66 سالوں سے سیاسی اوراسٹبلشمنٹی ہسپتالوں میں زیر علاج ہے ،جہاں ڈاکٹر دن،رات قانون کی خدمت کرتے ہیں اور یہ کوشش کرتے ہیں کہ قانون زندہ رہے لیکن مکمل صحت یاب نہ ہونے پائے۔انہوںکہا کہ آج کل رحمن ملک اُن ڈاکٹروں کا سربراہ ہے جو قانون کا علاج کررہے ہیں ۔میں نے پوچھا کہ کیا قانون سے ملنے اور تیمارداری ہرخاص و عام کرسکتا ہے ؟وہ مسکراتے ہوے بولے ارے بابا قانون صرف صاف ستھرے افراد سے مل سکتا ہے یعنی امیروں سے غریب آدمی تو قانون سے 4.2 سو کلومیٹر دور سے بھی گزرے تو وہ بے ہوش ہوجاتا ہے اور اگر ڈاکٹر توجہ نہ دیں تو مر بھی سکتا ہے۔
اس لیے میرے بھائی جہاں تک بات ہے خاص کی ، تو وہ ضرور مل سکتا ہے رہی بات عام آدمی کی تو اُسے قانون سے ملنا تودور کی بات ہے اُس کے بارے میں سوچنا بھی سختی سے منع ہے (س)جناب آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ قانو ن بیمار ہے ؟(ج)آپ نے کبھی دیکھا یا سنا تو ہوگا کہ بغیر نمبر پلیٹ یا بغیر لائسنس گاڑی چلانے کی وجہ سے ٹریفک پولیس شہری کاچالان کردیتی ہے۔ اور شہری چار پانچ سوروپے جرمانہ ادا کرکے پھر اُسی طرح گاڑی چلاتا پھرتا ہے ۔قانون کا استعمال صرف جرمانے کرنے کے لیے کیا جاتا ہے ناکہ جرائم کو ختم کرنے کے لیے،(س) کہیں ایساتونہیں ٹریفک پولیس صرف اپنی تنخوائیں پوری کرنے کے لیے چالان کرتی ہے۔
(ج)لگتاتو کچھ ایساہی ہے لیکن یہ سارا سچ نہیں کیونکہ اس کے ساتھ ساتھ ٹریفک پولیس وزیروں ،سفیروںاور اعلیٰ آفیسروں کوگزارنے کے لیے عام شہروں کو کئی کئی گھنٹے سڑک پر روکے رکھنے کا کام بھی سرانجام دیتی ہے، (س)اس کامطلب یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نوکری شاہی خاندانوں کی کرتے ہیں اور تنخواہ عام شہریوں سے اکٹھی کرتے ہیں ؟(ج)نہیں یہ بھی درست نہیں کہ ادارے کسی خاندان کی نوکری کرتے ہیں ادارے تو صرف اورصرف ریاست کے ہیں ،یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر ادارے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو شاہی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں یا غلامی کرتے ہیں۔
ہم پاکستان کے قومی اداروں کو بے کار نہیں کہہ سکتے کیونکہ اگر ادارے بے کار ہوجائیں تو نظام نہیں چلاکرتے ،آپ پولیس ہی کی مثال لے لیں ہماری پولیس بہت بدنام ہے لیکن اگر محکمہ پولیس نہ ہوتا توجرائم اس قدر بڑھ جاتے کہ ملک میں صرف جرائم پیشہ افراد ہی زندہ رہتے، (س)آپ کیا سمجھتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی قائم کرنا صرف حکومت کی ذمہ داری یا عوام کے حصے میں بھی کوئی ذمہ داری آتی ہے ؟(س)بالکل حکومت کی ذمہ داری ہے کہ قانون کی حکمرانی قائم کرے اور سب سے پہلے حکمران خود قانون کااحترام اور پاسداری کریں۔
اُس کے بعد عوام بھی قانون کا احترام کریں گے ،حاکم ہویامحکو م جوبھی قانون کی خلاف ورزی کرے اُسے اُس کے جرم کی سزا دی جائے تو قانون کی حکمرانی قائم ہوسکتی ہے، (س)آپ کے خیال میں ہمیں پاکستان میںقانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے کسی دوست ملک سے مدد مانگنی چاہیے ؟(ج)ہرگز نہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ بھوکے مر جائو لیکن قرض اور مدد کے نام پرکسی دوست یادشمن ملک سے کچھ نہ مانگوجو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے اُسی سے کام چلائو،جس قوم کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے کھانا اور تن ڈھکنے کے لیے کپڑا ہواُسے ترقی کرنے سے دنیاکی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ،پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے تمام تر نعمتوں سے نوازرکھا ہے اور پھر مسلما ن تو خود بھوکا رہ کردوسروں کو کھلاتا ہے ہم کیونکر بھیک مانگتے پھریں ؟