وفاقی شرعی عدالت نے 23 سال بعد تحفظ ناموس رسالت قانون کے تحت سزائے موت کی سزا کے ساتھ درج عمر قید کی سزا کو قانون سے حذف کرنے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں اور دو مہینے میں حکومت سے عملدرآمد کی رپورٹ طلب کی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ توہین رسالت کی سزا صرف اور صرف موت ہے اس کے علاوہ کوئی اور سزا دینا جائز نہیں ہے۔
جسٹس فدا حسین کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے بدھ کے روز حشمت حبیب ایڈووکیٹ کی جانب سے توہین عدالت کی درخواست پر فیصلے سناتے ہوئے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت نے1990 ء میں فیصلہ دیا تھا کہ سزائے موت کے ساتھ جو عمر قید کا تحفظ لکھا ہوا ہے اس کو حذف کر دیا جائے اور نکال دیا جائے۔کسی بھی رسول کی اہانت قابل قبول نہیں ہے اور اس طرح کی اہانت کرنے والا سزائے موت کا سزا وار ہے۔حشمت حبیب نے شرعی عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ وفاقی شرعی عدالت کے1990 ء کے فیصلے پر تاحال عمل نہیں کیا جا سکا اس پر عملدرآمد کا حکم دیا جائے اور عمل نہ کرنے والوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔عدالت نے درخواست نمٹاتے ہوئے2 ماہ میں قانون سے عمر قید کا لفظ نکالنے کا حکم دیا ہے۔
تاریخی حوالے سے یوں تو وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ نیا نہیں ہے۔ اصل حکم 1990ء کے ایک فیصلے میں جاری کیا گیا تھا۔ اسی حکم میں وفاقی شرعی عدالت نے یہ قرار دیا تھا کہ توہین رسالت کے معاملات میں قید کی گنجائش رکھنا غلط ہے۔ یعنی اس جرم کا مرتکب بہرصورت گردن زدنی ہے۔ تاہم گزشتہ 23 سال کے دوران ملک پر حکمرانی کرنے والی جمہوری اور آمرانہ حکومتوں میں سے کسی کو بھی شرعی عدالت کے اس حکم پر عمل کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔بحالء عدلیہ تحریک کے بعد سامنے آنے والی توانا عدلیہ نے چونکہ توہین عدالت کے نام سے مقدمات قائم کرنے اور سزائیں دینے کی ایک نئی روایت قائم کی ہے اس لئے ایک ایڈووکیٹ حشمت حبیب کو بھی یاد آ گیا کہ شرعی عدالت کے حکم پر عمل نہ کر کے شریعت سے زیادہ توہین عدالت کا ارتکاب کیا گیا ہے۔
law
اس لئے انہوں نے شرعی عدالت کے سامنے یہ درخواست دائر کر دی کہ حکومت نے اس حکم پر عمل نہ کر کے دراصل توہین عدالت کا ارتکاب کیا ہے۔تاہم اگر اس معاملہ کو گہرائی سے دیکھا جائے تو وفاقی شرعی عدالت کے جج حضرات کو خود ہی کٹہرے میں کھڑے ہو کر اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ وہ ایک ایسی ” شرعی ” عدالت کے جج کیوں کر بنے ہوئے ہیں جسے ملک کے آئین کے تحت محض ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ ملک کا اعلیٰ ترین عدالتی ادارہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہے۔ شرعی عدالت اس کے تحت کام کرتی ہے۔ اگر اس عدالت کے جج واقعی شرعی احکامات کے بارے میں اس قدر چوکنا ہیں پھر تو انہیں سپریم کورٹ کو اپنے ماتحت کرنے کا تقاضہ کرنا چاہئے تھا۔توہین مذہب اور توہین رسالت ایک فقہی مسئلہ ہے۔ ہم اس پر کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ لیکن یہ سوال بہرطور شرعی عدالت سے کیا جا سکتا ہے کہ جس امر پر اللہ کی کتاب اور اس کے رسول نے حکم جاری نہیں کیا اس پر آج کی شرعی عدالتوں کو اتنے واضح اور دوٹوک احکامات جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایک مسلمان معاشرے کی اکثریت شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتی ہے۔ لیکن گزشتہ دو تین دہائیوں میں سیاسی معاملات کی آمیزش کے ساتھ جس رویے اور مزاج کا نام شریعت رکھا گیا ہے ، وفاقی شرعی عدالت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس عدالت کا فرض ہے کہ وہ اس جاہلانہ انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے نہ کہ خود ہی جذبات کی رو میں بہہ کر اس قسم کے مزاج کی عکاس بن جائے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں توہین مذہب کے قوانین کو متروک قرار دیا جا رہا ہے۔ آخر اس رویہ کی بھی کوئی وجہ ہو گی۔ پاکستان کے اہل علم و ماہرین قانون اور عدالتوں کو اس پر بھی غور کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا کے بیشتر ملکوں میں سزائے موت کو ترک کر کے مجرموں کو سزائیں دینے اور ان کی اصلاح کے لئے اقدامات کرنے کا رویہ بھی فروغ پا رہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی شرعی عدالت نہ صرف یہ کہ ایک جرم میں موت کی سزا برقرار رکھنا چاہتی ہے بلکہ یہ قرار دے رہی ہے کہ اس کے سوا کوئی دوسری سزا قابل قبول نہیں ہو سکتی۔عدالت کے علم میں وہ سارے حالات بھی ہونے چاہئیں جن کے تحت توہین رسالت و مذہب کے مقدمے قائم کئے جاتے ہیں اور پھر ان پر عمل کروانے کے لئے جس طرح پرجوش صاحبان ایمان، قانون کے ساتھ شرافت اور نجابت کے سارے اصولوں کی دھجیاں بکھیرتے ہیں اس کا علم بھی وفاقی شرعی عدالت کو ہونا چاہئے۔
اس ملک میں ایک گورنر کو ان ہی کے محافظ نے محض اس لئے قتل کر دیا کہ انہوں نے توہین مذہب کے قوانین کو ناقص قرار دیا تھا۔ پھر اس قاتل کو ہیرو کا درجہ دے کر اس پر عدالتوں کے احاطوں میں پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ بعد میں اس قاتل کو سزا دینے والے جج کو ملک چھوڑ کر سعودی عرب میں پناہ لینا پڑی۔وفاقی شرعی عدالت کو یہ علم بھی ہونا چاہئے کہ باہمی جھگڑے نمٹانے کے لئے کس طرح توہین مذہب و رسالت کے قوانین کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلے جھوٹے الزامات ، شواہد اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر کسی مخالف کو پھنسایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کسی عدالت کے فیصلہ کا انتظار کئے بغیر خود ہی اسے قتل کر کے اپنے تئیں حّب رسول کے تقاضے پورے کئے جاتے ہیں۔
مبصرین کاکہناہے کہ ان قوانین کے تحت نامزد ہونے والے جن خوش قسمتوں کو عدالت سے سزا مل جائے یا وہ بری کر دئیے جائیں دونوں صورتوں میں ان کو موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف نہ کبھی کوئی کارروائی ہوتی ہے اور نہ ہی اسلام کے نام پر سیاست کرنے والے رہنما اور پارٹیاں ان عناصر کی سرکوبی کا مطالبہ کرتی ہیں۔ آخر توہین مذہب قوانین کے نام پر برپا کی جانے والی اس انارکی، انتشار اور لاقانونیت کا نوٹس کون لے گا؟ اگر وفاقی شرعی عدالت توہین عدالت کے زیر بحث مقدمہ پر فیصلہ کرنے میں عجلت کے ساتھ ان معاملات کا نوٹس لے کر ان کی روک تھام کے لئے بھی اقدامات کا تہیہ کرے تو یہ یقینا یہ اسلام ، مسلمانوں اور پاکستان کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔