امن کی بات امن سے۔۔۔۔۔۔!!!

Pakistan

Pakistan

تحریر:عقیل احمد خان لودھی

پاکستان اٹھارہ کروڑ سے زائد انسانوں کا ملک ہے، دنیا کے نقشہ پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے موجود اس ملک کوہر روز ایک نیا گھائو لگایا جاتا ہے۔ہر روز ایک نئی کہانی کو جنم دیا جاتا ہے ۔ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں از حدجہالت ہے ، سچ منہ چھپاتا پھرتا ہے، قانون بے حس، برسراقتدار طبقات، اشرافیہ کے کرتوت سیاہ انتظامیہ ان کے گھر کی باندھی اور بے لگام، عدالتیں بے بس،ایک عرصہ سے ملک پاکستان میں لاقانونیت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے طاقتور کو بچ نکلنے کا رستہ فراہم کیا جاتا ہے جبکہ غریبوں کو سرعام قتل کردیا جاتا ہے کبھی کسی الزام پر تو کبھی کسی۔اداروں کی جرائم پیشہ افراد کیخلاف فرضی کاروائیاں،عزتوں کی پامالیاں، دن دیہاڑے ڈکیتیاں،غریبوں کی زمینوں پر ناجائز قبضے، فراڈ، دھاندلیاں۔۔۔۔۔ مسیحی بھائی شور تو تب مچائیں جب اکیلے ان کیساتھ زیادتی ہوئی ہواور پھر زیادتی کے بعد ان کے مقدمات بھی درج نہ ہوں۔اگر برابری کی یہاں بات کی جائے تو پاکستان میں برابری کی بنیاد پرحقوق کا تقاضا اب یہ ہے کہ کوٹ رادھا کشن میں ہونے والے جوڑے کے قتل کا مقدمہ درج ہوچکا ہے۔

اب اس سے متعلق کاروائی کو قانون کے مطابق مکمل کروایا جائے اور شور مچانے کی بجائے پاکستان میں موجود عدالتوں سے انصاف حاصل کیا جائے جس طرح سے دیگر مقدمات کیمدعی،مقتولین ،مظلومین کے ورثاء انصاف کے حصول کیلئے میدان عمل میں ہیںاور درج مقدمات میں انصاف دینا عدالتوں کا کام ہے کسی تنظیم یا اعلیٰ شخصیت کا نہیں۔۔قتل یہاں روز ہوتے ہیں مگر کسی مسیحی کے قتل ہونے پر ملک پا کستان کے ذمہ دار حکمران جس طرح حرکت میں آتے ہیں وہ روزانہ قتل ہونے والے سینکڑیوں پاکستانیوں کے قتل پر کیوں نہیں آتے۔ وجہ یہی ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے متاثرہ افراد کو بین الاقوامی میڈیا کی سپورٹ حاصل ہوتی ہے اور بالخصوص ان ممالک کے میڈیا کی جن سے ہمارے حکمرانوں کے ذاتی اور مالی مفادات وابستہ ہوتے ہیں اور اس میڈیا کے ذریعے حکمرانوں اور ملکی اداروں کی کارکردگی دنیا پر کھل جاتی ہے۔

دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا ہمارے ہاں کیا خوب حل نکالا گیا ہے کہ مقتولین کے ورثاء کیلئے لاکھوں،کروڑوں کی امداد کا اعلان کر کے معاملات کو ٹھنڈا کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ شہزادہ مسیح اور شمع مسیح کے قاتلو ں کے ورثاء کو مقدمہ کے فیصلہ سے بھی قبل دیت کی رقم سے بھی زیادہ کرامات سے نوازا جارہا ہے۔ حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ مقتولین کے بچوں کی کفالت کیلئے 50 لاکھ روپے اور 10 ایکڑ زرعی زمین بھی دی جائے گی۔ اس طرح پاکستان میں دیگر انسانوں کے ہزاروں قتلوں سے مسیحی بھائیوں کے قتل بھاری ثابت ہوئے ہیں جس پر جناب حکمران برادران کو بھی اپنے اپنے افسوس اور موقف کی بھرپور وضاحت کرنا پڑی ہے۔

جناب صد احترام حکمران صاحبان !!! جب تک ملک میںبرابری کی سطح پرانصاف کی فراہمی کا سلسلہ شروع نہیں ہوتا یہاں قاتلوں کے حوصلے بلند اور شرفا خوف ،موت کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے۔ جناب عالی! قتل کی مختلف گھنائونی وارداتوں پر اور کیس ڈیل کرنے کے معاملات پرمختلف طریقہ کاراورمختلف رویے اختیار کرنے سے کوئی معاشرہ انصاف کا آئینہ دار نہیں ہوسکتا۔ایک طرف کسی کا پورا خاندان موت کے گھاٹ اتار دیا جائے اور وہاں آپ کی طرف سے حال بھی نہ پوچھا جائے اور دوسری جانب مظلومین کیلئے ریاستی وسائل کا منہ کھول دینا اس طرح بھی مظلوم طبقہ میں فرق آپ خود بڑھا رہے ہیں۔یہ 10 ایکڑ زمین اور مالی امداد اسی طرح سے ہر ہر مقتول ،مظلوم کے ورثاء کا حق ہے جس طرح سے اس مسیحی گھرانہ کو ٹھہرایا گیا ہے۔

دنیا کی نظروں میں اچھا بننے کے یہ امتیازی اقدامات معاشرے کے بے بس لوگوں کو مزید احساس کمتری کا شکار بنارہے ہیں۔ آج بھی ملک پاکستان میں ہزاروں مقتولین کے ورثاء صرف مقدمات کے اندراج کیلئے مختلف اداروں اور پولیس اسٹیشنوں کے دھکے کھانے پر مجبور ہیں ۔کئی بوڑھے والدین اپنی اولاد کے قاتلوں کے سرعام دھندناتے پھرنے سے روز جیتے اور روز مرتے ہیں ۔ مگر احتساب کا رسہ ظالموں کی موٹی موٹی گردنوں کو پورا آنے سے قاصر ہے۔ابھی گجرات شہر کے ایک تازہ ترین واقعہ میں ایک شیعہ مسلمان سید طفیل حیدرکو زیر حراست قتل کردیا گیا ہے جرم کوئی بھی ہو ریاست مجرم کو سزا دینے کی ذمہ دار ہوتی ہے کسی فرد یا گروہ کو کیا اختیار ہے کہ وہ خود دوسروں کیلئے سزا تجویز کرے اور سزا کو عملی جامہ پہنائے، وجہ صرف قانون کی عملداری کمزور ہونا ہے کہ اداروں کی بے بسی پر قانون ہاتھ میں لینے کا رحجان یہاں عام ہوگیا ہے۔

مسیحی بھائیوں سے بھی گزارش یہی ہے کہ وہ کسی ظلم کے واقعہ کے بعد انتشار کو ہوا دینے کی کوشش نہ کریں۔ کوٹ رادھا کشن والے واقعہ میں دو عیسائیوں کا نہیں انسانیت کا قتل ہوا ہے اور انسانیت کا قتل بلا امتیاز رنگ،مذہب ہمارے ہاں معمول بن چکا ہے اور یہ واقعہ جس رنگ میں پیش کیا گیا ہے اس کے موجدین نے اسلام دشمنی کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی رہی سہی کسر انسانی حقوق کی نام نہاد علمبردار تنظیمیں پوری کررہی ہیں جنہیں دنیا میں انسانوں ، بالخصوص مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نظر نہیں آتے اور ان کی دجالی آنکھ میں فقط انتشار کو ہوا دینے والے واقعات ہی سماتے ہیں لعنت ہے امن کے ایسے دوستوں پر !!! اسلام زمین پر فساد پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کی خاصیت تو یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے کے مذہب میں زبردستی کی اجازت نہیں دیتا اورکوٹ رادھا کشن کا جو واقعہ ہوچکا وہ ہر طرح سے غیر قانونی ، غیر اخلاقی اور معاشرتی اصولوں کے متصادم ہے مگر یہ اور اس جیسے دوسرے واقعات کی آڑ میںمذہب پر اوراسلام کے نام لیوائوں پر حملوں سے بھی گریز کیا جائے۔

یہ واقعہ کسی بھی مذہب سے ہٹ کر انسانیت کے قتل کا ہے اور اس جیسے واقعات سے ہمارا معاشرہ بھرا پڑا ہے ہمیں صرف کوٹ رادھا کشن ہی نہیں قتل وغارت گری، انسانیت سوزی کے تمام مجرمان کا حساب اور فوری حساب چاہیئے۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع استعمال کرنے والے افراد بالخصوص غیر مسلم (مسیحی بھائیوں) سے گزارش ہے کہ اس دھرتی اور اس کے قوانین کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے روایتی بے حسی، ذمہ دار اداروں اور ان سے وابستہ افراد کی مجرمانہ غفلت،قوانین کے غلط استعمال کرنے والوں کے احتساب کیلئے آواز اٹھائی جائے کہ جن کی طرف سے ذمہ داریاں نہ نبھانے پر انسانیت سوزی کے ایسے مظاہر عام ہوچکے ہیں۔ مذہب اسلام پرامن غیر مسلموں کے جان و مال کے تحفظ کا ضامن ہے غیر مسلموں پر بھی یہ فرض ہے کہ وہ مذہب کے معاملہ میں نفرت پھیلانے سے گریز کریں۔

Islam

Islam

اسلام اور مسلمانوں کیخلاف ہرزہ سرائی سے گریز کیا جائے اسلام کسی بھی مسلمان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے مذہب کی مقدس کتابوںاور شخصیات کے بار ے توہین آمیز رویہ سلوک اختیار کرے۔جو لوگ بھی انسانیت سوزی کے اقدامات اٹھاتے ہیں وہ اپنی ذاتی جہالت ،کم علمی اور جھوٹی انائوں کے پیرائے میں وہ سب کرتے ہیں جو کسی بھی مہذب معاشرہ میں کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔اسلام شرف انسانیت کا علمبردار دین ہے ۔ ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرفِ انسانیت کے منافی ہو۔ دیگر طبقات معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جا سکتا ہے ۔

اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملات دین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کر کے فراہم کی گئی، فرمایا گیا : لا اکراہ فی الدین ”دین میں کوئی جبرنہیں۔‘‘سورةالبقرة، 2 : 256)۔اسلامی معاشرے میں مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقلیتوں سے نیکی، انصاف اور حسن سلوک پر مبنی رویہ اختیار کریں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ”اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے ) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے ) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ”( الممتحنہ 8:60 )۔ ۔ اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتا ہے ”خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو روزِ قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔

ابو دائود، السنن، کتاب الخراج، باب فی تشعیر اھل الذمة اذا اختلفوا بالتجارات، 3 : 108، رقم : 3052)۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بیرونی علاقوں سے آنے والے غیر مسلم وفود کی میزبانی فرماتے ۔ جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی اور فرمایا :’’یہ لوگ ممتاز و منفرد حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے میں نے پسند کیا کہ میں خود ان کی تعظیم و تکریم اور مہمان نوازی کروں۔‘‘ بیہقی، شعب الایمان، 6 : 518، رقم : 9125۔۔۔) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا ”غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے ۔

ابن ابی شیبة، المصنف 5 : 408، رقم : 2745)۔۔اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کی عطا کی گئی تعلیمات اور دور نبوت و دور خلافت راشدہ میں اقلیتوں کے حقوق کے احترام و تحفظ کے ان روشن نظائر سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مسلم ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کو وہ حقوق اور تحفظ حاصل ہے جن کا تصور بھی کسی دوسرے معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا۔حضور نبی اکرم نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر پوری نسل انسانی کو عزت ، جان اور مال کا تحفظ فراہم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:”بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں (مقرر کی گئی) ہے ۔یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے (بخاری شریف)۔لہٰذا کسی بھی انسان کو نا حق قتل کرنا ،اس کا مال لوٹنا اور اس کی عزت پر حملہ کرنا یا اس کی تذلیل کرنا دوسروں پر حرام ہے۔

غیر مسلم شہری کے قاتل پر جنت حرام ہے :حضرت ابو بکر بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم نے ارشاد فرمایا :”جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری (معاہد)کو نا حق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر جنت حرام فرما دے گا۔)”نسائی شریف”)حدیث میں معاہد کا لفظ استعمال کیا گیا جس سے مراد ایسے غیر مسلم شہری ہیں جو معاہدے کے تحت اسلامی ریاست کے باسی ہوں یا ایسے گروہ اور قوم کے افراد ہیں جنہوں نے اسلامی ریاست کے ساتھ معاہدہ امن کیا ہو۔ اسی طرح جدید دور میں کسی بھی مسلم ریاست کے شہری جو اُس ریاست کے قانون کی پابندی کرتے ہوں اور آئین کو مانتے ہوں معاہد کے زمرے میں آئیں گے ۔ جیسے پاکستان کی غیر مسلم اقلتیں جو آئین پاکستان کے تحت با قاعدہ شہری اور رجسٹرڈ ووٹر ہیں ۔ پاکستان کے آئین و قانون کو پاکستان کی مسلم اکثریت کی طرح تسلیم کرتے ہیں یہ سب معاہد ہیں ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم نے فرمایا:جس نے کسی غیر مسلم شہری (معاہد ) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گاحالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے

۔“(صحیح بخاری )جو لوگ مذہب کے نام پر کسی کے حقوق کا استحصال کررہے ہیں وہ مسلمان نہیں حقیقت میں اسلام کے وہی دشمن ہیں اور ان کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں سے اسلام کی غلط تصویر دنیا کو پیش ہورہی ہے۔میری مسیحی بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے کسی کے دینی جذبات کو مجروح کر کے یا اس واقعہ کی بنیاد پر واقعہ سے ہمدردی رکھنے والے حقیقی مسلمانوں کی دل آزاری کرکے انتشار کو ہوا دینے اورنام نہاد امن تنظیموں کے اکسانے پر خود کو تفریق کرنے کی بجائے پاکستانی اور انسان دوست ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے وطن عزیز میں جاری لاقانونیت اور ذمہ داروں کی بے حسی کے سدباب کیلئے مثبت کردار ادا کریںامن کی بات امن سے ہی کی جائے اور ملکر محبتیں بانٹیں۔ حقیقی مسلمان اسلام کی درج بالا قرآن وحدیث کی تصاویر کا آئینہ دار ہوتا ہے مسلمانوں اور اﷲ کے دین امن سے نفرت کی بجائے انسانیت کو فروغ دو اسی میں معاشرے ،اقلیتوں اور سب کی بقاء ہے ۔مسیحی جوڑے کے قاتلوں کا سزا دلوانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اﷲ پاکستان کا حامی و ناصر ہو ! آمین۔

Aqeel Ahmed Khan Lodhi

Aqeel Ahmed Khan Lodhi

تحریر:عقیل احمد خان لودھی