تحر یر: شہزاد حسین بھٹی ایک مسلمان بنیادی طور پر مبلغ ہے قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق مسلمان دنیا کی بہترین اُ مت ہے اور دنیا کی اصلاح کے لیئے بھیجے گئے ہیں دنیا کی ا صلاح اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک انسان پہلے اپنی اصلاح نہ کرے کیونکہ جب تک انسان خوبیوں کا خود عملی نمونہ نہیں بنے گا جس پر و ہ دنیا کو عامل دیکھنا چاہتا ہے اس وقت تک اس کی ہر بات بے اثر رہے گی اور اسکی فکر میں عمل کا حسن نہیں آئے گا ۔ہمارے حکمرانوں کے قو ل و فعل میں تضاد نے آج انکو نا قابل بھروسہ بنا کر رکھ دیا ہے۔
ملک میں گذشتہ کچھ عرصے سے عجب روائیت چل پڑی ہے کہ ہمارے با اثر سیاست دان اپنے خلاف 302کی ایف آئی آر کٹنے کے باوجو د نہ تو گرفتا ر ی دے رہے ہیں اور نہ ہی قانون انکو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کر رہا ہے اور یوں عدالتوں سے اشتہاری قرار دیئے جانے والے با اثر اشرافیہ سر عام دندناتے پھر رہے ہیں ۔اور اب تو لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز نے بھی اپنے خلاف سول سوسائٹی کی جانب سے درج ایف آئی آر کے بعد کہا ہے کہ وہ نہ تو گرفتاری دیں گے اورنہ ہی ضمانت قبل از گرفتاری کر وائینگے جسکی وجوہات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چونکہ اس ملک میں وزیرا عظم نوازشریف ،وزیر اعلیٰ شہبازشریف ،سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ ،عمران خان اور طاہرالقا دری جیسے لوگوں کے خلاف بے گنا ہ افراد کے قتل عام جیسی ایف آئی آر درج ہوئیں اور وہ عدالتوں سے اشتہاری قرار پائے باجود اسکے وہ عنان حکومت سنبھالے ہوئے ہیں جیسے کہ کچھ ہو ا ہی نہیں ہے تو پھر میں کیوں گرفتاری دوں؟
یہی وہ سوال ہے جو گذشتہ کچھ عرصے سے مجھ نا چیز کو بے چین کیئے ہوئے ہے کہ آخر اس ملک میں قانون و انصاف کے ساتھ یہ کیسا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے قانون بے بس ہو گیا ہے یا پھر اشتہاری طاقتور؟ بچپن میں سنا تھا کہ انگریز کے دور میں قانون کا طوطی بولتا تھا ۔ اگر کسی گاؤں کے درخت کے اوپر صرف دفعہ 302لکھ دیا جاتا تو وہ درخت قانون کے خوف و دہشت سے سوکھ جا یا کرتا تھا کوئی بے گناہ قتل ہو جا تا تو آسمان سر خ ہو جاتا اور اندھی چلنے لگ جاتی۔ کوئی عدالتوں سے اشتہاری قرار دے دیا جا تا تو وہ جنگلوں اور پہاڑوں کی جانب مفرور ہو جا تا ۔یا تو وہ گرفتار ی دے دیتا یا پھر قانون اسے اپنی گرفت میں کر لیتا تھا بعض اوقات تو کئی کئی پولیس مقابلے ہوتے اور پھر اشتہاری پولیس مقابلے میں مار دیا جا تا ۔محمد خان ڈاکو کی مثال آپ کے سامنے ہے جسے ظلم کے خلاف آواز اٹھا نے کے لیئے ڈاکو بننا پڑا اور اشتہاری قرار دیئے جانے کے بعد کئی سال جنگلوں اور پہاڑوں میں روپوش رہا۔
آخر قانون کو آج اتنا بے تو قیر کیوں کیا جا رہا ہے یا تو قانون میں تبد یلی کر دی جائے کہ اگر کسی شخص پر الزام لگتا ہے اور ایف آئی آر درج کی جا تی ہے تو اسے اس وقت تک گرفتا ر نہیں کیا جا ئے گا جب تک اس پر جرم ثابت نہیں ہو جا تا اس طرح ضمانت قبل از گرفتاری کا قانون بھی غیر مو ثر ہو جائے گا یا پھر اگر قانون ہے ،اس کی عمل داری ہے تو کیا وہ صرف ان ہزاروں بے گناہ لوگو ں کے لیئے ہے جو صرف ایف آئی آر درج ہونے اور ملزم نامزد ہونے کی بناء پر سالہا سال سے جوڈیشل ریمانڈ پر جیلوں میں پڑے ہیںاور انکی کوئی شنوائی نہیں ۔دوسری طرف اگر ان بااثر اشرافیہ کے حوالے سے بات کی جائے تو وہ قانون کی دجیاں بکھیرنا فخر سمجھ رہے ہیں۔
Law
قانون کے بارے میں قانون کی کتابوں کے دیباچے میں لکھا ہے “قانون وہ جا ل ہے جس میں بڑی مچھلی توجال پھاڑ کر نکل جا تی ہے اور چھوٹی مچھلی اس میں پھنس جا تی ہے “۔ سعادت حسن منٹو کے مشہور زمانہ ڈرامہ” نیا قانون1935 ء “کا کردار منگو کوچوان بھی قانون کو بہت اہمیت دے بیٹھا تھا کہ یکم اپریل 1935ء کو نیا قانون آئے گا اور جس کے لاگو ہونے کے بعد وہ بحثیت ہندوستانی آزاد ہو جائے گا اور وہ اپنے مخالف گورے کو خوب سبق سکھائے گا مگر وقت نے ثابت کیا کہ اسکی سوچ غلط تھی قانون صرف کتابوں میں آیا تھا جبکہ عملاً گورے کی حکومت ہی رائج تھی۔
ہمارے ملک میں تو قانون کا یہ حال ہے کہ سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ اشتہاریوں کو اپنے ساتھ بیٹھا کر پریس کانفرنس کرتے ہیں اور قانون اتنا لولہ لنگڑا ہے کہ ان اشتہاریوں کو گرفتار کرنے کی جسارت تک نہیں کر سکتا اب تو چو ر بھی کہے چو ر چور چور کے مصداق ہر کوئی ایک دوسرے کو اشتہاری قرار دے رہا ہے ۔عدالتوں کی توقیر کو مذاق بنا دیا ہے اب یہ تما م ذمہ داری چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ عدلیہ کے وقار اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے لیئے سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے جن جن افراد کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہیں انکا تعلق چاہے کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت سے ہو ان کی گرفتار ی پر عمل درآمد کے احکامات جاری کرے تاکہ عدلیہ کی جو توہین اور بے توقیری کا سر عام تماشا بنایا جا رہا ہے اسکو فوری طور پر روکا جاسکے۔
ہمارے حکمرانوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے خود کو قانون کے حوالے کر کے اپنی بے گناہی ثابت کریںیا پھر اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کروا کے قانونی راستہ اختیار کریں۔جس سے ثابت ہو کہ وہ قانون شکن نہیں بلکہ قانون کا ا حترام اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں سینکڑوں افراد جو آج جیلوں میں 302اور دیگر سنگین نوعیت کے مقدمات میں پابندسلاسل ہیںاور ابھی تک ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہو ا مگراس کے باوجو د وہ جیل کی کال کوٹھری میں گل سڑ رہے ہیںوہ یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ اس ملک کا وزیر اعظم خود 302 کا ملزم ہے اور وہ کس طرح حقِ حکمرانی کا مستحق ہو سکتا ہے ۔اس طرح کی لا قانونیت کا جو تماشا آج رچایا جا رہا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
ذوالفقار علی بھٹو جیسے ہر دل عزیز عوامی لیڈر 302 کے مقدمے میں طویل عرصہ پابند ِسلاسل رہے اور بلا آخر ہمارے موجودہ عدالتی نظام میں سقم اور عدلیہ کے ججز کے جانب دارانہ رویے نے ایک ثخص کے اشارے پر پھانسی تک پہنچا دیا اور آج انکے عدالتی قتل پر تما م سیا سی و مذہبی حلقے موجودہ عدالتی نظام پر انگلیاں اٹھانے میں حق بجانب ہیں ۔ہمارے قوانین میں کسی بھی کمزور شخص کو نا کردہ گناہ پر پھانسی گھاٹ تک پہنچایا جا سکتا ہے جبکہ بااثر شخص کو جرم کرنے کے باوجود باعزت بری کر دینے کی مثالیں ہماری تاریخ میں بھر ی پڑی ہیں جن میں ریمنڈ ڈیوس کیس سے لیکر شاہزیب قتل کیس تک کی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں ان بااثر افراد کو اس طرح قانون کے شکنجے سے نکالا گیا جیسے مکھن سے بال نکال لیا جا تا ہے ۔بدقسمتی سے وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا جس میں قانون کا دورہ معیا ر مقرر ہو ۔حضرت علی کا قول ہے کہ”کفر کا نظام چل سکتاہے مگر ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔