تحریر: محمد رضاایڈووکیٹ ڈسکہ میں پیش آنے والے دلخراش واقع کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ جہاں ایک پولیس آفیسر کی فائرنگ سے 2وْکلاء شہید اور مزید 2 زخمی ہو گئے۔ اس واقع کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ حالات کیسے بھی تلخ کیوں نہ ہوں اسطرح کے سنگین ترین جرم کا کوئی جواز ہو ہی نہیں سکتا۔ محکمہ پولیس ایسا بدنام ہے کہ عام شہری کی نظر میں پولیس کا تاثر انتہائی منفی نظر آتا ہے۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں بلکہ ہمیشہ سے ایسا ہی چلا آرہا ہے۔ سیاست دانوں کا پولیس کو عموماً اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی وجہ سے اس محکمہ میں ایک پیشہ وارانہ ماحول بھی نہیں بن سکا۔
سیاسی و انتظامی مداخلت، نظم و ضبط کا فقدان، میرٹ کی عدم موجودگی اور نسبتا غیر سنجیدہ رویہ اور مفادات کی دوڑ میں مصروف قیادت بھی پولیس فورس کی ناکامی اور نااہلی کی اہم وجوہات ہیں۔ حالیہ واقع کے ردِ عمل میںوْکلاء کا رویہ بھی انتہائی نامناسب،غیر ذمہ دارانہ رہا ہے ۔ ڈسکہ کے واقع کی وجوہات بھی کچھ ایسی ہی ہیں جہاں مجموعی رویے سے مشتعل ہو کر ایک ذمہ دار سرکاری آفیسر نے انتہائی قدم اْٹھایا۔ اس ساری صورتحال کے نتیجے میں جس طرح سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور پولیس فورس کے لوگوں کو چْن چْن کر تشدد اور بے عزتی کا نشانہ بنایا گیا اس سے دلوں میں نفرتیں اور قدورتیںمزید بڑھیں گی نہ کہ کسی قسم کی بہتری واقع ہوگی۔انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ڈسکہ سانحہ پر ہر کوئی اپنی مرضی اور سوچ کے مطابق کہانیاں بنارہا ہے جبکہ اصل حقائق سے اکثریت ناواقف ہے۔
میڈیا ورلڈ لائن کی رپورٹ کے مطابق ڈسکہ بار کے عامر بشارت ایڈووکیٹ نے اپنے سائل کے نکاح نامہ کی کمپیوٹرائزڈنقل لینے کیلئے ٹی ایم اے آفس کی نکل برانچ میں کلرک فاروق احمد سے نکاح نامے کی نقل مانگی جس پر کلرک نے جواب دیا کہ نکاح نامنے کا ریکارڈ نہیں مل رہا جیسے ہی ریکارڈ رجسٹر مل جائے گاتو کمپیوٹرائزڈ نقل دے دوں گا۔وکیل نے اصرار کیا کہ جو نکاح نامہ میرے پاس ہے اسی کے مطابق کمپیوٹرائزڈ نقل بنادیںجس پر دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی اور تکرار کے دوران کچھ وکلاء اور ٹی ایم اے کے عملے کے درمیان ہاتھا پائی ہونے پر ٹی ایم اے کی اطلاع پر تھانہ سٹی پولیس موقع پر پہنچی ۔پولیس نے دونوں پارٹیوں کو تھانے آنے کو کہا اسی دوران صدر ڈسکہ بار رانا خالد عباس ودیگر وکلاء بھی وہاں پہنچ گئے اوروکلاء نے ٹی ایم اے کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔پولیس کے منع کرنے پر وکلاء اور پولیس کے مابین بھی تلخ کلامی ہوگئی اور وکلاء نے پولیس کے خلاف بھی نعرہ بازی شروع کردی۔
Lawyers Protest
وکلاء کی نعرہ بازی سے ایس ایچ او تھانہ سٹی شہزاد ورڑائچ نے اشتعال میں آکر نہتے وکلاء پر شدید فائرنگ کردی ۔فائرنگ کے نتیجہ میںدو وْکلاء شہید اور مزید دو زخمی ہوگئے۔ پولیس اوروکلاء 2اہم ادارے ہیں ۔پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے جان ومال کا تحفظ کرے اور وکلاء عدالتوں میں سائلین کو انصاف دلانے کیلئے آئین وقانون کے مطابق جدوجہدکریں ۔ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ کوئی بھی ادراہ ،تنظیم یاجماعت سوفیصد درست نہیں ہوسکتی ۔ہرجگہ اچھے ،بُرے لوگ موجود ہیں اور رہیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ملک و قوم کے وسیع تر مفادکو مدنظر رکھتے ہوئے ہر طرح کے تشدد،ظلم اور انتشار سے دوررہیں ۔جہاں کوئی ظلم وزیادہ ہوذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے سب مل کر حق کا ساتھ توپولیس گردی بھی ختم ہوجائے گی۔قانون نافذ کرنے والے ادارے معاشرے کا چہرہ ہواکرتے ہیں افسوس کہ سانحہ ڈسکہ میں ہونے والی پولیس گردی اور پھر وکلاء احتجاج میں پُرتشدد رویے نے معاشرے کے خوبصورت چہرے پرتیزاب کا کام کیا۔سانحہ ڈسکہ کے ذمہ دار ایس ایچ او جیسے پرتشدد ذہن کے مالک افراد کو نہ صرف محکمہ پولیس سے نکال بارکرنے کی ضرورت ہے بلکہ دیگر اداروں کو بھی ایسے عناصر سے پاک کر دیا جانا چاہیے۔
پولیس کاکام ملکی املاک اور عوام الناس کے جان ومال اور عوامی حقوق کا تحفظ کرنا اور جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنا ہے جبکہ وکلاء عدل و انصاف کی فراہمی میں عدلیہ کی معاونت کرتے ہیں ۔اس طرح یہ دونوں ادارے امن و امان اور آئین و قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔افسوس کہ جب محافظ ہی قاتل بن جائیں اور عدل وانصاف کے رکھوالے تشدد پسند عناصر کے ہتھے چڑھ کر اپنے املاک کی تھوڑ پھوڑ اور جلائوگھرائوکرنے لگ جائیں تو عام شہریوں کی فریاد کہاںاور کون سنے گا؟حکمران تو پہلے ہی اقتدار اوردولت کی بھنگ پیئے اپنی دھن میں مگن ہیں۔