لیہ (ایم آر ملک سے) کیا ملکی منظر نامے میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے اور ایک بار پھر تاریخ کی آنکھ 1977 کاپس منظر دیکھنے والی ہے ؟یہ ہے وہ سوال جو عمران خان کے آزادی اور ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلاب مارچ کے اعلان کے بعد حکومت وقت کی طرف سے دونوں جماعتوں کے کارکنوں کی اندھا دھند گرفتاریوں، نظر بندی کے بعد وطن عزیز کے باسیوں کے اذہان میں تیزی سے گردش کر رہا ہے ہر دو پارٹیوں کی جانب سے متوقع اعلانات کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے۔
حکومتی اور عوامی اضطراب ہے کہ بڑھتا جارہا ہے اور حکومت مخالف سیاسی جماعتیں اپنے مشترکہ اتحاد کا وزن عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے پلڑے میں ڈال رہی ہیں” بھاری مینڈیٹ ” کے سامنے ”ان ہائوس ” تبدیلی ایک خواب نظر آتی ہے سو تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے حکومت مخالف جماعتوں کی سرپرستی کرتے ہوئے ”سٹریٹ پاور ”شو کرنے پر اکتفا کیا اس امکان کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے کہ عوامی رد عمل اور شاہرات کی سیاست حکومتی اقدامات اور خواہشات کے برعکس کسی بڑی تبدیلی پر متنج نہ ہو خود حکومت کے اتحادی حکومت جانے کی خواہش لیئے دل میں بیٹھے ہیں بقول شیریں مزاری آصف علی زرداری نے عمران خان کے ساتھ دس منٹ کے دورانئے میں جو ٹیلیفونک گفتگو کی اُس میں عمران کے موقف کی بھر پور تائید کی جبکہ اسمبلی سیشن میں لیڈر آف اپوزیشن سید خورشید شاہ آصف علی زرداری سے کئی قدم آگے نکل گئے اور ن لیگ پر واضح کردیا کہ آرٹیکل245کے تحت اسلام آباد میں فوج کی تعیناتی منی مارشل لاء لگانے کے مترادف ہے ہم جمہوریت کے حامی ہیں لیکن حکومت کو بچانے کی کوشش نہیں کریں گے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے عمران اور نواز شریف مفاہمت میں یہ واضح کیا کہ ”گیند حکومت کے کورٹ میں ہے۔
سٹریٹ پاور شو وطن عزیز میں کوئی نئی بات نہیں یہ بنیاد 1956سے 1958میں میجر جنرل سکندر مرزا کے وطن عزیز کے پہلے صدر بنتے ہی پڑ گئی یہ محض اس لئے ہوا کہ میجر جنرل سکندر مرزا نے پارلیمنٹ کو اپنے زیر تسلط لانے کیلئے تین وزراء اعظم چوہدری محمد علی ،حسین شہید سہروردی ،ابراہیم اسمٰعیل چندریگر کو زبردستی مستعٰفی ہونے پر مجبور کردیا یہ ایک طرح کی آمریت تھی سکندر مرزا کے دست راست اور پسندیدہ وزیر اعظم فیروز خان نون کے بطور وزیر اعظم بر اجمان ہونے تک 1958میں عوام خان عبدالقیوم خان کی قیادت میں شاہرات پر نکل آئے سکندر مرزا کے ذہن میں سمائے خناس نے یہاں بھی اُس سے مصلحت کی سوجھ بوجھ چھین لی اختیارات کی تلوار چلی اور اسمبلی تحلیل ہو گئی سکندر مرزانے یہیں پر بس نہیں کیا ایوب خان کو واپس بھجوانا چاہا تو خود اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے ایوبی مارشل لاء کے سائے اتنے گہرے تھے کہ 13سال جمہوریت ایک منتخب وزیر اعظم کو ترستی رہی 65ء کے پاک ہند معرکے کے بعد عوامی تحریک کاہدف اپنے وقت کا مرد آہن ایوب خان بنا عوام بیروز گاری اور مہنگائی کے خلاف شاہراہوں پر نکلے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے طلبا کی ہر شہر کو احتجاجی کال ملی تو7نومبر1968کو طلباء کی ریلی پر فائرنگ میں تین طالب علموں کی ہلاکت ایوب خان کر اقتدارکو لے ڈوبی دوسری بڑی تحریک پی این اے (پاکستان نیشنل الائنس )نے 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائی جب آج کی تحریک کے خدو خال دیکھے جاتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔
کیونکہ 77ء کی تحریک بھی انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف چلی تب 19نشستوں پر دھاندلی ہوئی تھی یہ تحریک نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے خاتمے پر اختتام پذیر ہوئی بلکہ اسی تحریک کے نتیجہ میں ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار تک پہنچے ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے اگلی تحریک نے 1981 میں ضیاء الحق کے خلاف جنم لیا 1990کے انتخابات میں دھاندلی اور کرپشن کے خلاف نومبر 1992میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے لانگ مارچ کا اعلان کیا جس میں نوابزاد ہ نصراللہ مرحوم ہراول بنے جبکہ تحریک میں قاضی حسین احمد ،محمد خان جونیجو شامل تھے نواز شریف حکومت نے حسب روایت ریاستی طاقت کا استعمال کیا 1993میں ہزاروں افراد کے ساتھ جب محترمہ بے نظیر بھٹو اسلام آباد عازم سفر ہوئیں تو اُس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے استعفٰی لیا یوں جولائی 1993میں نواز شریف کو عوامی حمایت کھونے کی بنا پر اقتدار کے ایوان سے نکلنا پڑا اس طرح لانگ مارچوں کی تاریخ حکمرانوں کی رخصتی پر متنج ہوتی رہی اس بار بھی شایدآزادی اور انقلاب مارچ کے عوامی ریلے کو روکنا ناممکن ہو جائے۔