اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ جو لیڈر حالات کے مطابق یوٹرن نہ لے، وہ لیڈر ہی نہیں کیونکہ ہٹلر اور نپولین نے یوٹرن نہ لے کر بڑی شکست کھائی۔
وزیراعظم عمران خان نے کالم نویسوں سے ملاقات کی جس میں مختلف امور پر بات چیت کی گئی۔
سینئر صحافی مظہر برلاس نے جیو نیوز سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ‘ وزیراعظم نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران اپنے کرکٹ کے دور کی مثال دی اور کہا کہ ہم ایک حکمت عملی بناکر میدان میں اترتے تھے، اگر اس کے خلاف ہماری مخالف ٹیم کوئی اور حکمت عملی بنالیتی تھی تو ہمیں یک دم اپنی حکمت عملی بدلنا پڑتی تھی’۔
مظہر برلاس نے بتایا کہ وزیراعظم نے اپنی گفتگو کے دوران نپولین اور ہٹلر کا حوالہ دیا اور کہا کہ ‘ جب آپ جارہے ہوں اور سامنے دیوار ہو تو آپ کو اِدھر اُدھر راستہ تلاش کرنا چاہیے’۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ‘جو لیڈر حالات کے مطابق یوٹرن نہ لے وہ لیڈر ہی نہیں، جو یو ٹرن لینا نہیں جانتا اس سے بڑا بے وقوف لیڈر نہیں ہوتا، ہٹلر اور نپولین یوٹرن نہ لے کر نقصان میں گئے’۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ‘یوٹرن لینا اسٹریٹجی کا حصہ ہوتا ہے اور تاریخ میں بڑے بڑے لوگوں نے یوٹرن لے کر چیزیں بہتر کی ہیں’۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ‘یوٹرن لینے اور جھوٹ بولنے میں فرق ہے، نواز شریف نے عدالت میں یوٹرن نہیں، جھوٹ بولا’۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دورۂ چین کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں، اس بار چین کا دورہ جتنا کامیاب رہا کسی وزیراعظم کا دورہ اتنا کامیاب نہیں رہا، چین سے ہر قسم کی امداد مل رہی ہے، ہم مطمئن ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے لیے کام جاری ہے، دبئی میں پاکستان کے 15 ارب ڈالرز کا سراغ لگا لیا گیا ہے، برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ سے معاہدہ ہوچکا ہے، جس سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں مدد ملے گی جب کہ بیرون ملک جائیداد کے انکشاف پر اپوزیشن کی تنقید بڑھ گئی۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ احتساب قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے، نیب چھوٹے مقدمات میں الجھ چکا ہے، جس سے اس کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے معاملے پر عمران خان کا کہنا تھا کہ کرپشن کیس کا سامنا کرنے والے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نہیں بن سکتے، شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانا قوم سے مذاق ہوگا لہٰذا کسی صورت انہیں چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نہیں بنائیں گے۔
وزیراعظم عمران خان نے اس عزم کو بھی دہرایا کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں پر مکمل عملدرآمد کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے 100 دن کی تکمیل پر مفصل اور جامع پروگرام قوم کے سامنے پیش کرے گی، کسی بھی حکومت میں پہلے سو دن حکومت کی آئندہ سمت کا تعین کرتے ہیں۔
عمران خان کاکہنا تھا کہ ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک حقیقی معنوں میں جمہوریت نہ آئے اور بدقسمتی سے پاکستان میں کبھی جمہوریت کے لیے کوشش نہیں کی گئی، پاکستان میں جمہوریت کی بجائے کلپٹوکریسی کا رواج رہا ہے، حکومت کرنے والے اقتدار کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔
وزیراعظم نےکہا کہ سب سے اہم منی لانڈرنگ پر قابو پانا ہے، اس وقت ایک اندازے کے مطابق تقریباً 10ارب کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے، منی لانڈرنگ پر قابو پانےکیلئے ہم بیرونی ممالک سے معاہدے کررہے ہیں، اب تک جو معلومات ملی ہیں اس سے اندازہ ہورہا ہےکہ کیوں اقامے کی ضرورت پیش آتی تھی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اس وقت 15 سے 20 ارب قانونی طریقوں سے بیرون ملک سے آرہا ہے، 15 سے 20 ارب حوالہ ہنڈی کے ذریعے بھیجا جا رہا ہے، پاکستان کاشمار ان ملکوں میں ہے جہاں کی دولت حکمران اشرافیہ منی لانڈرنگ سے بیرون ممالک بھیجتی ہے، ملکی تاریخ میں تمام بیرونی امداد کے باوجود بھی ہمارا شمار تیسری دنیا کے ملکوں میں کیا جاتا ہے۔
انہوں نےکہا کہ بدقسمتی سے ہمیں اب تک پتہ ہی نہیں چل سکا کہ اس ملک میں کتنے وسائل موجود ہیں، حکومت میں آکر دیکھا اب تک صرف تیل اور گیس کے شعبے میں صرف 6 فیصد حصہ ہی استعمال ہوا ہے، تیل اور گیس کے علاوہ یہاں کیا کیا وسائل ہیں، ان کی دریافت کے لیے کسی حکومت نے توجہ نہیں دی۔
عمران خان کا کہناتھاکہ جس ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہاں اداروں کوجان بوجھ کر کمزور کیا جاتا ہے، میرٹ کو نظر انداز کرکے اداروں پر اپنے من پسند افراد کو تعینات کیا جاتا ہے اور ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ وہ حکمران اشرافیہ کی چوری میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وائٹ کالر کرائم کو پکڑنا مشکل ہوتا ہے، ہماری جنگ ڈیموکریٹس کےخلاف نہیں بلکہ ملک تباہ کرنے والوں کے خلاف ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی 55 نشستوں پر محض تین، چار ہزار کے مارجن سے ہاری، 14 سیٹیں قومی اسمبلی جب کہ 40 نشستیں صوبائی اسمبلی کی تھیں، اپوزیشن کو واضح کہاکہ جن جن نشستوں پر اعتراض ہے وہ حلقے کھلواسکتے ہیں، کے پی میں روایت ہےکسی پارٹی کو ایک دفعہ منتخب کرنے کے بعد اس کو دوبارہ چانس نہیں دیتے، خیبرپختونخوا کے صوبے کی عوام نے پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت سے دوبارہ کامیاب کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اور دیگر اس لیے شور مچارہے ہیں کیونکہ ان کو پتا ہےکہ خیبرپختونخوا سے ان کا صفایا ہوگیا ہے، اب دیگر جگہوں سے بھی انکا صفایا ہونے والا ہے۔
وزیراعظم نے بتایاکہ جب اقتدار کی باگ دوڑ سنبھالی تو مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارےکا سامنا تھا، حکومت کی یہ کوشش تھی فوری طور پر ان دو مسائل سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، اسی وجہ سے دوست ملکوں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا، شکر ہے کہ دوست ملکوں کی مدد سے وقتی طور پر اس مسئلے پر قابو پا لیا گیا ہے، ہمیں احساس ہے کہ یہ وقتی اقدامات ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اپنی معیشت کی مستقل بہتری کیلئے 4 چیزوں پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی، برآمدات بڑھانی ہیں، سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے اور بیرون ملک سے ترسیلات کو بڑھانا ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ بیرون ملک پاکستانیوں کوسہولیات دے رہےہیں تاکہ وہ بینکوں سے پیسہ ملک بھیجیں، اس وقت ملک میں سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع موجود ہیں، کوشش ہے سرمایہ کاری میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر ہو جس سےملک ترقی کرے گا۔
عمران خان نے مزید کہا کہ پاور سیکٹر میں 2013 میں گردشی قرضہ 400 ارب تھا، 2018 میں یہ 200 ارب تک پہنچ گیا، گیس کے شعبے میں خسارہ 150 ارب، پی آئی اے میں 400 ارب، پاکستان اسٹیل کا 400 ارب، یوٹیلٹی اسٹورز14 ارب اور پوسٹل 9 ارب کے خسارے میں ہے، ان مشکلات پر آہستہ آہستہ قابو پائیں گے۔
وزیراعظم کا کہناتھاکہ ایف آئی اے میں اصلاحات کا عمل جاری ہے، نیب خود مختار ادارہ ہے، امید ہے نیب اس امر کا جائزہ لے گاکہ موجودہ استعداد کی بنیاد پر کتنے کیسز کو منطقی انجام تک پہنچا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض حلقوں کے دعوؤں کے برعکس ملک میں کوئی افراتفری کی صورتحال نہیں، لیڈر حالات و واقعات کو مدنظر رکھ کر اپنا لائحہ عمل اور حکمت عملی میں تبدیلی لاتا ہے، قومیں محض وسائل سے نہیں بلکہ احساس سے بنتی ہیں، غریب طبقے کا احساس ہونا چاہیے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ آئندہ چند روز میں تعلیم، صحت اور غربت کے خاتمےکیلئےجامع اور مفصل پروگرام پیش کررہے ہیں، موجودہ دور میں مشکل حالات کا سامنا ہے لیکن آئندہ چند ماہ میں واضح تبدیلی نظر آئے گی۔