حضرت آدم اور اماں حوا کی دھرتی پر آمد کے ساتھ ہی نسل انسانی کی تاریخ کا آغاز ہو گیا تھا’ انسان نے لباس آدم سے پتوں چمڑوں جنگل پتھر کپڑے سے تہذیب کا سفر کیا قافلہ شب و روز چلتا رہا وقت کا بے راس گھوڑا اپنی ہی دھن میں دوڑا چلا جارہا ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ انسان اخلاقی اقدار کے زیور سے مزین ہو تا چلا گیا ‘ وقتی گردشوں جغرافیائی سیاسی حادثوں فکری مباحثوں انسانی تجربوں عصری شہادتوں اوروقتی ضرورتوں نے انسان پر حقیقی راز کھولے ‘ حضرت انسان کا یہ سفر طویل بھی ہے اور دل گداز بھی زمینی وآسمانی آفتوں نے کئی بستیاں اجاڑدیں ‘ بر سر اقتدار قوموں کے گلوں میں غلامی کے طوق ڈال دئیے ‘ ہزاروں لاکھوں آبادیوں والے شہر راکھ کے ڈھیر بنا دئیے گئے لاکھوں انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر اُن کے سروں کے مینار بنادئیے گئے ‘ کتنے شہر صفحہ ہستی سے مٹ کر دوبارہ آباد ہو ئے ‘ قافلہ انسانی دھوپ چھائوں میں ڈوبتا ابھرتا رہا ‘ انسانی تہذیب کے نشیب و فراز میں ہر بار تاریخ انسانی کے آسمان پر کچھ نہ کچھ رنگ چھوتا چلا گیا ‘ انسانی جدو جہد کے اِس طویل سفر میں انسان کے مختلف رنگ سامنے آتے گئے شروع سے آج تک طاقت اقتدار دولت کے بل بوتے پر انسان خود کو دوسروں سے برتر ثابت کر نے کی ناکام کو شش کر نے میں لگا ہوا ہے۔
دوسروں پر حکومت غلبہ حاصل کرنے کے لیے انسان نے اپنے جیسے انسان پر درندگی بربریت کے انوکھے خوفناک کھیل کھیلے۔ دوسروں پر حکمرانی اور غلبے کے لیے جب بھی کسی انسان کو طاقت دولت فوجی لشکر ملے وہ وحشی درندوں کی طرح انسانی آبادیوں پر چڑھ دوڑا ‘ شہر فتح کر نے دولت لوٹ لینے کے بعد بھی جب تسکین نہ ہو ئی تو شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جلا کر شہر راکھ کے ڈھیر بنا دئیے ‘ مردوں کے سر قلم کر کے عورتوں کو جنسی تسکین کے لیے اوربچوں کو غلام بنا کر ساتھ لے گئے ‘ دوسروں پر حکمرانی کے لیے انسان نے اپنی عقل شعور دولت فوجی لشکر استعمال کئے اقتدار حاصل کر نے کے لیے انسان نے اخلاقی اقدار کی پامالی کی ‘ مذہب قصہ ماضی بنادیا اقتدار کے کو چے تک رسائی کے لیے جائز ناجائز تمام حدیں کراس کر تا چلا گیا کوچہ اقتدار تک پہنچنے کے لیے اُس کو بھائی باپ بیٹے کا خو ن بھی کر نا پڑا تو یہ انسان باز نہ آیا اپنی بر تری اور دوسروں کو غلاموں کی طرح اپنے سامنے سر جھکائے دیکھنا ‘ ہر دور کے انسان کی ضد یا خواہش رہی ہے اور پھر اِس کی تکمیل کے لیے اُس نے ہر وہ حربہ آزمایا جس کے ذریعے وہ دوسروں پر حکمرانی کر سکے اپنی اِس خواہش کی تکمیل کے لیے اگر آپ انسا نی جبلت اور تاریخ کا مطالعہ کر یں توسر چکراکر رہ جاتا ہے کہ دنیا کی عارضی زندگی کے لیے کس طرح انسان نے وحشت و عبرت کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے لاکھوں انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح قدموں تلے کچل کر رکھ دیا ملکوں کو فتح کر نے کے بعد عوام کو غلام بنا کر ساتھ لے گیا انسانی وحشت و بربریت کا اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو یہ حقیقت تاریخ انسانی کے سارے ادوار میں روشن ہو تی چلی گئی کہ ظلم جبر طاقت ور فوجی لشکروں کے ساتھ جس طالع آزمانے بھی انسانوں پر حکومت کر نے کی کو شش کی وہ وقتی طور پر تو ضرور کامیاب آیا لیکن ماہ سال صدیوں کے غبار میں پھر ایسے حکمرانوں کے نام تک نظر نہ آئے ایسے سر پھرے ظالم لٹیروں کا آج کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہے اِیسے لوگوں پر گمنامی کی ایسی چادر پڑی کہ کسی نے اُسے ہٹانا پسند نہ کیا۔
ہر دور کے ظالم حکمرانوں نے طاقت دولت سازشوں فوجی لشکروں سے عارضی کامیابی تو حاصل کرلی لیکن مستقل کامیابی اورشہرت سے یہ کوسوں دور رہے یہ لوگ جتنا عرصہ طاقت کے زور پربر سراقتدار رہے لوگ مجبور اًِن کو حکمران مانتے رہے لیکن جیسے ہی یہ لوگ شکست زوال یا موت کی پل صراط سے گزرے کسی نے اِن کی طرف مُڑ کر بھی نہ دیکھا آپ نسل انسانی کا ورق ورق مطالعہ کر لیں آج ان حکمرانوں کی قبروں تک کے نشان مٹ چکے ہیں مٹی ان کے جسموں کو مٹی کے ڈھیروں میں بدل گئی آج ان کے ناموں پر خاموشی اورگمنامی اور ذلت کے تاریک سائے ہیں جب یہ لوگ زندہ اور برسراقتدارتھے تو یہی سمجھتے تھے زمانہ انہی کے دم قدم سے ہے ہم ہیں تو زمانہ ہے ہم نہیں تو کچھ نہیں یعنی انسان نے ہردور میں ہمیشہ نام زندہ رہنے کی کو شش کی ہر انسان کے دل میں موت قبر لاش دیکھ کر یہ خیال ضرور آیا کہ ایک دن میرا جسم بھی اِس عمل سے گزرے گا تو بہت کم لوگ تھے جو یہ جانتے تھے یہ دنیا عارضی ہے یہاں پر حکومت صرف اللہ کی ہے ۔ظالم جابر حکمران ہر دور میں اِس زعم میں مبتلا رہے کہ ان جیسا حکمران نہ ماضی میں آیا اور نہ ہی مستقبل میں آئے گا لیکن ایسے لوگوں کا خیال کبھی بھی حقیقت نہ بن سکا۔
اگر ہم انسانی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو ایک چیز کھل کر سامنے آتی ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں زندہ امر شہرت کے آسمانی پر وہی لوگ چمکے جنہوں نے حق کا ساتھ دیا جنہوں نے انسانوں سے حقیقی محبت کی جن کا مذہب انسان سے پیار بھلائی کی یہی قانون فطرت بھی ہے جس نے بھی انسانو ں کی فلاح و بہبود کے کام کئے قدرت نے انہیں تاریخ کے ماتھے کا جھومر بنا دیا ہر دور کے حکمران کا یہ خواب اور خواہش رہی ہے کہ وہ انسانوں کے ظاہر ہر حکمرانی کے ساتھ ساتھ اُن کے دلوں پر بھی حکمرانی کر ے لیکن یہ شہرت اور اعزاز صرف انہی لوگوں کو ہی نصیب ہوا جنہوں نے انسانوں سے حقیقی محبت کی ‘ ایسے لوگ انسانی تاریخ کے ہر دور میں کہیں کہیں ہمیں نظر آتے ہیں ایسا ہی ایک کردار آجکل بھی دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے حالیہ نیوزی لینڈ کا دلخراش واقعہ جب ایک سفید فام درندے نے مسجد میں جمعہ کے دن معصوم نہتے نمازیوں پر آتشیں اسلحے سے حملہ کر دیا معصوم پاکباز نمازیوں پر گولیوں کی بارش کر دی معصوم انسانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا پچاس مسلمان جام شہادت نوش فرماگئے بے شمار زخمی آج بھی نیوزی لینڈ کے ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں اِس دل خراش واقعے نے دنیا بھر کے امن پسند باسیوں کو چیر ڈالا۔
دنیا کے چپے چپے سے امن پسند لوگوں کی آنکھیں اِن معصوم مسلمانوں کی ہمدردی میں اشکبار ہیں یورپ جو ہمیشہ سے مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام دھرتا آیا ہے اِس بار جب سفید فام درندے نے انسانوں کو گولیوں سے عبادت گاہ میں بھون ڈالا تو پھر خاموشی اور قتل کے الفاظ کی گردان کر نے لگا تو ایسے وقت پر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن حق کا علم تھامے پردہ جہاں پر نمودار ہو تی ہے پھر جس طرح سیاہ ماتمی لباس پہن کر سر پر دوپٹہ اوڑھے وہ متاثرین سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی ہے اُن کو ڈھارس دیتی ہے گلے ملتی ہے افسوس کا اظہار کر تی ہے پو رے ملک میں سرکاری ریڈیو ٹی وی پر آذان نشر کراتی ہے حدیث مبارکہ پڑھ کر ۖ احترام سے آقا کریم ۖ کا نام لیتی ہے سفید فام دہشت گرد جس کو آج بھی امریکہ بہادر اور یورپ دہشت گرد کہنے سے گریز کر رہا ہے سر عام دہشت گرد قرار دیتی ہے اور وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ وہ اُس دہشت گرد کا نام بھی اپنی زبان پر نہیں لاناچاہتی ‘متاثرین زخمیوں کے لواحقین کے ساتھ وزیر اعظم نیوزی لینڈ کا حسن سلوک دیکھ کر دنیا بھر کے امن پسندوں کے دلوں کی وہ لیڈر بن چکی ہے انسان اپنے اقتدار کو مضبوط اور طویل بنا نے کے لیے اربوں ڈالر خرچنے کو تیار رہتا ہے ماضی کے حکمران نے خود کو دلوں کو حکمران بنانے کے لیے لاکھوں جتن کئے لیکن وہ ناکام ہی رہا لیکن جسینڈا نے غم کی اِس گھڑی میں زخمیوں لواحقین متاثرین کا جس طرح ساتھ دیا ہے اِس کی وجہ سے تاریخ انسانی کے آسمان پر روشن ستارے کی طرح چمک رہی ہے اپنے اسی حسن سلوک کی وجہ سے کرہ ارض پر پھیلے ڈھیڑھ ارب مسلمانوں اور دوسرے امن پسند لوگوں کے دلوں کی وہ دھڑکن بن چکی ہے جس جرات ہمت محبت پیار سے اُس نے متاثرین کی مشکل میں ان کا ساتھ دیا ہے اُس کی وجہ سے آج وہ دلوں کی لیڈر بن چکی ہے ایسے ہی لیڈر ہوتے ہیں جو تاریخ کے چہرے ضیابخشتے ہیں ایسے لوگوں سے ہی انسانیت زندہ وقائم رہے گی۔